اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے لندن روانگی سے قبل آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سےایک اور ملاقات کی جس میں انہوں نے فنڈ کے پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی دعوت پر 22 اور 23 جون کو ہونے والے نیو گلوبل فنانسنگ پیکٹ (نئے عالمی مالیاتی معاہدے) کے لیے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس میں موجود تھے۔
دفتر وزیراعظم سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی لندن روانگی سے قبل ان کے اور منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف کے درمیان پیرس میں تین ملاقاتیں ہوئیں۔
وزیر اعظم نے پاکستان کی معاشی حقیقتوں سے متعلق غور کرنے پر منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف کی سوچ کو سراہا اور کہا کہ پاکستان اپنی تمام کمٹمنٹس کو پورا کرنے کا جذبہ اور عزم رکھتا ہے۔
وزیر اعظم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو شدید معاشی چیلنجز سے نکلنے میں دنیا کی معاونت کی قدر کرتے ہیں، سیلاب نے معاشی مشکلات کو مزید مشکل بنایا لیکن پاکستان نے اس کے باوجود اپنے عوام کو ریلیف دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو ریلیف ملنا ان کا حق ہے، معاشی مشکلات نے عوام کو بہت زیادہ تکلیف میں مبتلا کردیا ہے جو ان کی برداشت سے باہر ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عوام کے ریلیف اور معاشی حقائق کے درمیان توازن چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کو واپس ترقی کے راستے پر لانا آئی ایم ایف اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے، گزشتہ 4 سال کی معاشی بدحالی کی بحالی کے لیے ناگزیر اقدامات اٹھانا ہوں گے، معاشی بحالی سے آئی ایم ایف اہداف کو بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح عالمی برداری کے ساتھ اپنے عزم اور وعدوں کی تکمیل پر پورا اترتا رہے گا۔
ملاقات میں آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے وزیر اعظم شہباز شریف کے پاکستان کے لیے عزم کو سراہا۔
قبل ازیں 21 جون کو پیرس پہنچنے کے اگلے ہی روز وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات کی تھی جس میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری پروگراموں اور تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہاں یہ بات مدِنظر رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے 2019 کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کے لیے 9ویں جائزے کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی اور اس میں صرف 6 روز باقی ہیں۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی مقامی نمائندہ ایستھر روئز پیریز نے کہا تھا کہ 2019 توسیعی فنڈ سہولت کے تحت زیر التوا 2.5 ارب ڈالر میں سے کچھ رقم کے اجرا کے حوالے سے بورڈ کے جائزے سے قبل پاکستان کو آئی ایم ایف کو تین معاملات پر مطمئن کرنے کی ضرورت ہے جس میں آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی شامل ہے۔
پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے قریب ہونے کے ساتھ آئی ایم ایف نے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جس سے ان خدشات نے جنم لیا کہ شاید معاہدہ نہ ہوپائے۔
تاہم حکومت نے اپنے طور پر آئی ایم ایف کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بجٹ کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہے اور قابل قبول حل تک پہنچنے کے لیے عالمی قرض دہندہ کے ساتھ مصروف عمل ہے۔
چنانچہ آج قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بجٹ 2024 میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق کی گئیں متعدد تبدیلیوں سے آگاہ کیا۔
ان اقدامات کے تحت آئندہ ماہ سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے وفاقی حکومت نئے ٹیکس کی مد میں مزید 215 ارب روپے جمع کرے گی اور اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کرے گی، اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے کئی دیگر اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے زرمبادلہ کے گرتے ذخائر کے باعث پاکستان کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کی اشد ضرورت ہے جبکہ اس کے بغیر وہ دیوالیہ ہو سکتا ہے۔
ای ایف ایف معاہدے کے 9ویں جائزے کے تحت ملک کو گزشتہ سال اکتوبر میں قرض دہندہ کی جانب سے تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ملنے تھے لیکن تقریباً 8 ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ قسط جاری نہیں کی گئی، جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے معاہدے کی اہم شرائط پوری نہیں کیں۔