کراچی: (سچ خبریں) ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اور وزیرخارجہ حسین امیرعبداللہیان کی ہیلی کاپٹرحادثے میں ناگہانی موت کے بعد سوال پیدا ہوا ہے کہ قائم مقام انتظامیہ اور صدارتی انتخابات کے بعد وجود میں آنیوالی نئی قیادت سے پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟
کراچی میں ایرانی قونصلیٹ میں منعقد تعزیتی تقریب کے میزبان ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان اور تعزیت کیلئے آنے والوں نے اس سوال کا وضاحت کے ساتھ جواب دیا۔
تعزیت کیلئے آنے والوں نے جو کہا اسکا ذکر بعد میں پہلے یہ کہ ایرانی صدر کی ایک اہم خواہش پوری نہ ہوسکی اور وہ یہ تھی کہ وہ دورہ پاکستان میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے، پاکستان میں انکی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جہاں انہوں نے طلبہ اور دیگر افراد سے خطاب کیا، ہال انکے حق میں نعروں سے گونجتا رہا، شرکا کے نزدیک وہ عالم اسلام کی بلند تر اور مضبوط ترآواز تھے جو فلسطینیوں پراسرائیلی مظالم کیخلاف پوری طاقت سے گرج رہی تھی۔
عوامی گورنر سندھ کے لقب سے مشہور محمد کامران خان ٹیسوری تعزیت کیلئے آنے والوں میں سب سے پہلی شخصیت تھے، قونصل جنرل سے ملاقات میں انہوں نے اپنے دورہ ایران اور صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان سمیت ایرانی وفد کے حالیہ دورہ کراچی کی یادیں تازہ کیں۔
صدر سید ابراہیم رئیسی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینے کو گورنر سندھ نے اپنے لیے اعزاز قرار دیا اور بتایا کہ ایران کے زیرک سیاستدان ابراہیم رئیسی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کی تصویر اپنے صدارتی صفحے پرشئیر بھی کی تھی، گورنر سندھ نے ایرانی صدر کو عالمی اسلام کا ہیرو قراردیا اور تاثرات میں لکھا کہ وہ مدبر سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے وطن کی بے لوث خدمت کی۔
گورنرسندھ نے بعد میں میڈیا سے بات کی، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے عوامی صدر کا لقب پانیوالے صدر رئیسی سے عشائیہ پر ہوئی بات چیت بھی انہوں نے تفصیل سے بتائی، گورنرسندھ نے کہا کہ صدر رئیسی اشیائے خورونوش کی قیمتیں، عام لوگوں کی تنخواہوں اور روزمرہ زندگی سے متعلق امور دریافت کرتے رہے اور پوچھا کہ لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہیں۔
گورنرسندھ نے امید ظاہر کی کہ نئی قیادت ان تمام معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر عمل کرے گی جن پر ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دستخط کیے گئے تھے، کامران ٹیسوری نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ایرانی سفیر سے تعزیت کیلئے اسلام آباد روانہ ہورہےہیں۔
ابھی ایک لمحہ بھی نہ گزرا تھا کہ پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری، خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تعزیت کیلئے آئے، قونصل جنرل سے ملاقات میں بلاول بھٹو نے صدر رئیسی کے ناگہانی انتقال کو مسلم دنیا کیلئے سانحہ قرار دیا۔
وزیر خارجہ کی حیثیت سے حسین امیر عبداللہیان سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ انہیں اس بات پر خوشی ہے کہ ان رابطوں سے پاک ایران تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا موقع ملا۔
بلاول بھٹو نے اپنے دورہ ایران کی یادیں بھی تازہ کیں جس میں خاص طورپر صدر رئسیی سے ہوئی ملاقات اور بات چیت کا حوالہ دیا۔
تعزیتی تاثرات درج کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان کے انتقال نے انہیں بھائی، دوست اور ساتھی سے محروم کردیا ہے، آصفہ بھٹو زرداری نے بھی اپنے بھائی کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے تاثرات کے صفحے پر دستخط کیے۔
تعزیتی تقریب میں شریک آصفہ بھٹو کا چہرہ شاید اس لیے بھی غمزدہ تھا کیونکہ ایران کے صدر رئیسی کے حالیہ دورہ پاکستان میں آصفہ بھٹوپل پل مہمان خاتون اول ڈاکٹر جمیلے السادات علم الہدی حیات کے ساتھ رہی تھیں، استقبال سے الوداع تک ساتھ رہنےکی بنیادی وجہ آصفہ بھٹو کا پاکستان کا خاتون اول ہونا ہے کیونکہ اس حیثیت میں وہ ہر مہمان خاتون اول کی سرکاری میزبان کا فرض نبھاتی ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر جمیلے السادات علم الہدی حیات جہاں گئیں، ان میں سے اکثر مقامات پر وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی یاد میں فاتحہ خوانی اورایثال ثواب کی دعاؤں سے تقریب کا آغاز کرتی رہیں، کبھی بے نظیر بھٹو کی زندگی کے واقعات بتاتیں اور کبھی مسلم دنیا میں بطور خاتون انکے کردارکی اہمیت سے آگاہ کرتیں۔
آصفہ بھٹو سے انکا تعلق ماں بیٹی جیسا نظرآیا تھا، شاید اسکی ایک وجہ سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو بھی ہوں، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی وہ بیگم جن کا تعلق ایران سے تھا، وہ خاتون جنہوں نے خوشی کے چند لمحات کے سوا ساری زندگی یا تو شوہر کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا دیکھ کر گزاری، انکی پھانسی سہی اور پھر جواں سال بیٹوں میر شاہنواز بھٹو اورمیر مرتضی بھٹو کی شہادت کا صدمہ جھیلا، شاید خدا نے بے نظیربھٹو کا غم دیکھنے سے انہیں بچانا تھا جو بیٹی کی شہادت سے پہلے وہ خالق حقیقی سے جاملی تھیں۔
شہید بےنظیربھٹو کے چشم وچراغ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کا احترام تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ان دونوں کو خداحافظ کہنے پہلے باہر گئے اور پھر تعزیتی کتاب میں تاثرات درج کرنے لوٹے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کا ذکر کیا اور کہا کہ انکا دورہ کراچی گو مختصر تھا اور مسلسل سفر اور ملاقاتوں کے سبب وہ تھکے ہوئے تھے مگر ہر ایونٹ میں تروتازہ اور مسکراہٹوں کے ساتھ جلوہ گر رہے۔
وزیراعلیٰ نے انکشاف کیا کہ ایرانی وفد نے انہیں بتایا تھا کہ ممکن ہے صدراپنے اعزاز میں عشائیے میں شرکت نہ کرسکیں مگر اس عشائیہ میں بھی وہ آخری لمحات تک پوری توانائی کےساتھ شریک رہے۔