کراچی: (سچ خبریں) سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 26 ویں آئینی ترمیم کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے درخواست کے فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کو کام سے روکنے اور ہائیکورٹس میں نئے ججز کی تقرری پر پابندی کی استدعا کردی۔
میڈیا کے مطابق سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر کردہ درخواست میں وفاق، حکومت سندھ، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بناتے ہوئے 26 ویں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی ہے کہ ہ درخواست کے فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کو کام کرنے سے روکا جائے جبکہ ہائیکورٹس میں نئے ججز کی تقرری بھی روکی جائے۔
واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی 12 سے زائد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں، گزشتہ ہفتے رجسٹرار سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کو نمبر الاٹ کردیے تھے۔
6 دسمبر کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے ایک روز قبل لکھے گئے خط کا جواب دیتے ہوئے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کی مخالفت کی تھی۔
اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت فل کورٹ کے ذریعے کرنے کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔
ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے اپنے خط میں 26ویں آئینی ترمیم کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا ذکر کیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی مقدمات کی سماعت کے حوالے سے فیصلے آئینی کمیٹی کرے گی اور یہ اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس نہیں ہے، ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کی رائے کو اکثریتی ممبران کی حمایت حاصل رہی۔
5 دسمبر کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کا اگلے روز ہونے والا اجلاس مؤخر کرنے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا جس میں مشورہ دیا گیا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کردیا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی تھی جبکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف 2 درجن سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے لکھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں منظور ہوسکتی ہیں اور مسترد بھی، درخواستیں منظور ہوئیں توجوڈیشل کمیشن کےفیصلوں کی وقعت ختم ہو جائے گی، ایسی صورتحال ادارے اور ممبران کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔
خط میں مشورہ دیا گیا کہ 26 ترمیم کے خلاف درخواستوں کے فیصلے تک اجلاس مؤخر کردیا جائے اور چیف جسٹس 26 آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مشورہ دیا کہ چیف جسٹس رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواستیں سماعت کے لیے لگانے کا حکم دیں۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی فہمیدہ مرزا، محسن داوڑ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے 8 نومبر کو مشترکہ طور پر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر نے 5 نومبر کو اور جماعت اسلامی پاکستان نے 4 نومبر کو درخواست دائر کی تھی اور سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔
اختر مینگل، فہمیدہ مرزا، محسن داوڑ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کی مشترکہ درخواست 26ویں آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے طریقہ کار اور ترمیم میں عدالیہ کی آزادی کو سلب کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے کالعدم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست میں وفاق، جوڈیشل کمیشن، خصوصی پارلیمنٹری کمیٹی کو فریق بنایا گیا، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور الیکشن کمیشن کے افسران کو بھی درخواست میں فریق بنایا گیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ماضی میں عدلیہ کے ذریعے ایکزیکٹیو اور قانون سازی کے اختیارات میں مداخلت ہوئی تھی، 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلمینٹ نے عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کی، اس ترمیم کو فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے۔