کراچی: (سچ خبریں) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے مفاہمت آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو میثاق جمہوریت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے جس پر 2 مرکزی جماعتوں نے یہ یقینی بنانے کے لیے دستخط کیے کہ ان میں سے کوئی بھی اقتدار میں آنے یا جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فوج سے مدد حاصل نہ کرے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جے ڈی سی فاؤنڈیشن کے تحت مفت تشخیصی لیب کا افتتاح کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران بلاول بھٹو نے انتخابی تاریخ کے اعلان کے پیشِ نظر حریف جماعت پی ٹی آئی کے لیے نرم رویہ اپنایا۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے امکان کو مسترد نہیں کیا، تاہم انہوں نے آئندہ انتخابات سے قبل ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی حالیہ کوششوں کی حمایت نہیں کی۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلزپارٹی کے انتخابی اتحاد کے امکان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک میثاق جمہوریت کا تعلق ہے تو میرے خیال میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق جمہوریت میں آنا چاہیے اور یہ بہت اچھا ہوگا اگر پی ٹی آئی بھی میثاق جمہوریت کو تسلیم کرلے اور اس میں شامل ہو جائے۔
یاد رہے کہ پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اس وقت کی جلاوطن قیادت اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک دوسرے کے نزدیک آگئی تھیں اور مئی 2006 میں لندن میں دونوں نے مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ہم آہنگی اور مفاہمت پر مبنی نئے سیاسی نظام کے قیام کا تصور پیش کیا گیا تھا تاکہ پاکستان میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔
2 سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دستخط شدہ یہ دستاویز ملک میں فوجی حکمرانی کے خلاف ان کی مشترکہ مہم کا ذریعہ بنی۔
بلاول بھٹو نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا خیرمقدم کیا، تاہم انہوں نے اس شکایت کا اعادہ کیا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب نہیں ہے، پھر بھی وہ اس حوالے سے پراعتماد نظر آئے کہ اگلی حکومت پیپلزپارٹی بنائے گی۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے، پیپلزپارٹی کو ماضی کے کسی بھی انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی گئی، حتیٰ کہ 1988 اور 2008 کے عام انتخابات میں بھی ہمارے پاس لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ہم نے اپنا مینڈیٹ حاصل کیا اور حکومتیں بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی ہے لیکن کسی دوسری پارٹی کے لیے نہیں، اگر پی ٹی آئی کو پہلی بار کسی الیکشن میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ ویلکم ٹو دی کلب۔
دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے اسے تمام سیاسی جماعتوں کی ’عظیم کامیابی‘ قرار دیا کہ بالآخر الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کر دیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ الیکشن کمیشن خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا اور سپریم کورٹ کو مداخلت نہ کرنی پڑتی، بہرحال جو ہوا، ہو گیا، اب انتخابات 8 فروری کو ہو جانے چاہئیں۔
بلاول بھٹو نے اپنے پرانے اتحادی اور سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن کے حالیہ بیانات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا جو تاحال عام انتخابات انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔
دریں اثنا سابق وزیر خارجہ نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو کس طرح وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔
انہوں نے غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی کے عمل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ صحیح کام کو غلط طریقے سے انجام نہیں دیا جا سکتا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اس بارے میں بہت واضح ہیں اور جب انسانی حقوق سے متعلق معاملات کی بات آئے تو ہمارا بہت سخت مؤقف ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی غیرقانونی سرگرمی سے نمٹنے کے لیے ایک مناسب طریقہ کار موجود ہوتا ہے لیکن ابھی جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس سے اِس عمل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، قانون پر عمل ضرور ہونا چاہیے لیکن اس عمل میں انسانی حقوق کے طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔