اسلام آباد:(سچ خبریں) اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر تشدد سے متعلق تین مقدمات میں ضمانت میں 26 جولائی تک توسیع کردی۔
مارچ کے شروع میں سابق وزیر اعظم کے خلاف دارالحکومت کی رمنا پولیس نے دو مقدمات درج کیے تھے، ان پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب ہجوم کی قیادت کرنے کا الزام ہے جب وہ سماعت کے لیے وہاں پیش ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ گولڑہ پولیس اسٹیشن نے ان کے خلاف فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر بے امنی پھیلانے کے الزام میں تیسرا مقدمہ درج کیا جب وہ 18 مارچ کو توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے وہاں گئے تھے۔
گزشتہ سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی نے چیئرمین پی ٹی آئی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور انہیں 19 جولائی کو طلب کیا تھا۔
عدالت میں ان کی آمد سے قبل پی ٹی آئی نے بارش کے دوران سابق وزیر اعظم کی اسلام آباد پہنچنے کی ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی۔
آج انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کیس کی سماعت کی، عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوران سماعت عدالت نے پولیس سے مکالمہ کیا کہ اگر بے گناہ ہے تو بے گناہ کر دیں، اگر کوئی ثبوت ہے تو بتائیں، جج نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر تفتیش ٹھیک نہ ہوئی تو آئی جی کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کر لوں گا، آپ کو ذہن نشین رہے تفتیش واضح ہونی چاہیے۔
عدالت نے پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی مذاق ہے، میں تو کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دوں گا، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو ملوث کیا ہوا ہے، اگر کچھ نہیں ہمارے خلاف تو بتا دیں، ہم اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لیں گے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پولیس کمپلیننٹ، پولیس ہی تفتیش کر رہی ہے، عدالت عاشورہ کے بعد تک کیس ملتوی کر دے کیونکہ میں ان دس دنوں میں کام نہیں کرتا۔
اس دوران عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر طلب کر لیا، وکیل نے کہا کہ کیا کوئی ویڈیو ثبوت ہے سازش ہے، کیا ہے؟ اس دوران عدالت نے دروازہ کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ کھلی عدالت ہے، دروازہ بند نہ کریں۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے دہشت گردی کے تین مقدمات میں ضمانت میں 26 جولائی تک توسیع کردی، پولیس کی استدعا پر عدالت نے دہشت گردی کے تینوں مقدمات میں سماعت ملتوی کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف سابق وزیراعظم کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس کے ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کر رکھی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا تھا، ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے سات دن کا وقت دیا تھا، ٹرائل کورٹ نے 6 جولائی کو درخواست پر ابتدائی سماعت کی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 8 جولائی کو ہم نے کیس 10 جولائی تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، ٹرائل کورٹ نے ہماری استدعا مسترد کرتے ہوئے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سنے، ہمارا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ مجاز اتھارٹی کی جانب سے شکایت فائل نہیں کی گئی، عدالت نے 8 جولائی کو فیصلہ محفوظ ہونے کے 15 منٹ بعد فیصلہ سنا دیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل کے 15 منٹ بعد ہی فیصلہ سنا دیا گیا۔
ٹرائل کورٹ نے پہلے تین سوالات کے جواب دیے، ٹرائل کورٹ نے باقی سوالات کا جواب نہیں دیا، ہائی کورٹ کی جانب سے سات دنوں میں فیصلہ کرنے کا وقت 12 جولائی کو مکمل ہونا تھا، 8 جولائی کو سماعت 10 جولائی تک ملتوی کرنے کی استدعا کو منظور نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ میں آئندہ سماعت کب ہونی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ میں کیس کل سماعت کے لیے مقرر ہے، ہائی کورٹ کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیجے تو کسی دوسری عدالت کو بھیجتی ہے، ایک جج جو اپنا مائنڈ واضح کر چکا ہو اسے دوبارہ کیس نہیں بھیجا جاتا۔
سابق وزیراعظم کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس کے قابل ہونے کے خلاف درخواست پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔ فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔