اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیردفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کی جانب سے آڈیولیکس پر قائم کمیشن کو کارروائی سے روکنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں منصف مدعی یا ملزم ہو اور مفاد وابستہ ہو تو ان کو منصفی کی کرسی میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ اور پارلیمنٹ کا متحارب ہونے کا سلسلہ پچھلے کئی مہینوں یا ایک سال سے چل رہا ہے، نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر ہم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو طے شدہ اصول قانون ہے تو اس کی بھی مزاحمت کی جاتی ہے یا ختم کردیا جاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مفادات کا ٹکراؤ بڑا بنیادی اصول ہے جہاں پر منصف مدعی یا ملزم بھی ہو یا بالواسطہ یا بلاواسطہ مفاد وابستہ ہو تو اصول یہ کہتا ہے یہ ان کو منصفی کی کرسی میں نہیں بیٹھنا چاہیے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس ایوان نے ایک کمیشن بنایا اور وہ کمیشن کابینہ نے بنایا، جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور ان کے ساتھ بلوچستان اور اسلام آباد کے چیف جسٹسز کو رکھا گیا‘۔
کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس صاحب نے اس سارے عمل کو روک دیا، ہم نے پارلیمنٹ کے اراکین کو اس پر مقرر نہیں کیا یا عدلیہ کے باہر سے کسی کو کمیشن میں تعینات نہیں کیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس کو اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ ان ٹیپس میں ان کی خوش دامن اور ان کا بیان شامل تھا، انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ کمیشن بنایا اور چیف جسٹس سے امید تھی کہ وہ مہربانی کریں گے اور اپنی ذات کو اس چیز سے دور رکھیں گے اور انصاف کا ترازو اس کمیشن کے ہاتھ میں رہنے دیں گے تاکہ وہ انصاف کرسکیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آڈیو ٹیپس یا جو گفتگو سنی جاتی ہیں یا آڈیو لیکس شاید فون یا ڈیوائس کے ساتھ کچھ لگا کر کی جاتی ہیں، آج کل برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں موبائل ہیک کیا جا سکتا ہے اور تمام گفتگو ریکارڈ پر آسکتی ہے، اس کے لیے سننے والی ڈیوائس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے‘۔
آڈیو ٹیپس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’ہیکرز دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر ہیک کر سکتے ہیں، امریکا اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی انٹیلی جینس میں مداخلت ہوئی اور معلومات چوری کی گئیں اور یہ قصہ پاکستان میں بھی ہوسکتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اسپیکر نے ایک کمیٹی بنائی اور اسلم بھوتانی اس کے انچارج ہیں اور میری اطلاع ہے کہ ثاقب نثار کے بیٹے نے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دے دی‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ثاقب نثار کے بیٹے کی باقاعدہ کروڑوں روپے کا سودا کرتے ہوئے آواز ہے، یا تو آواز سے انکار کریں کہ یہ آواز میری نہیں ہے یا بتائیں کہ وہ اس گفتگو میں کوئی بڑا نیک کام کر رہے تھے یا کوئی بڑا فلاحی کام کر رہے تھے، وہ تو اپنی فلاح کا کام کر رہے تھے اورٹکٹ کے لیے کوئی ایک کروڑ 20 لاکھ کا سودا تھا اور ٹکٹ بھی اس الیکشن کے لیے جو ہونا نہیں تھے، 14 مئی گزر گئی اور انتخابات نہیں ہوئے پتا نہیں پیسے جو بیانیہ لیا تھا وہ واپس کیے یا نہیں کیے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج سے چند برس قبل ایک کیس تھا اور اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے اور ان کے بیٹے کا ملک ریاض کے ساتھ مقدمہ تھا اور جب مقدمہ لگا تو چیف جسٹس نے خود کو الگ کرلیا اور خود منصف نہ بنے لیکن اس طرح کی روایات سپریم کورٹ کے چند لوگوں نے ترک کردی ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری عدلیہ کی ایسی روایات تھیں جہاں تاریک روایات بھی تھیں وہاں پر اچھی رویات بھی تھیں لیکن لگتا ہے اچھی روایات کو ترک کیا جا رہا ہے، اگر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری خود کو الگ کر سکتے ہیں تو آج ایک ایسا مسئلہ جن میں ان کے عزیز کی آڈیو ٹیپس ہیں تو اپنے آپ کو اس بینچ سے علیحدہ کرنا چاہیے بلکہ دور دور کا بھی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے تاکہ انصاف پر ان کی ذات اثر انداز نہ ہوسکے‘۔
وزیردفاع نے کہا کہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا اور اس میں چیف جسٹس کے اختیارات کو وسعت دی گئی لیکن اس پر دستخط نہیں ہوئے تھے اور قانون نہیں بنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، ایک چیز جو عمل سے گزر رہی ہے اس کا نوٹس لیا یہ پہلے کبھی نہیں ہوا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے تھے کہ اس سے ایک ایسا عمل متعارف کیا جائے، جس سے سپریم کورٹ میں ون مین شو کا تاثر ختم ہو، وہاں بھی جمہوریت کے اصولوں پر عمل درآمد ہو، ہم نے اس میں بھی باہر سے کسی کو نہیں ڈالا، ہم نے تجویز کیا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں جو اختیارات استعمال کیے جا رہے ہیں، ان کا دائرہ کار وسیع کیا جا سکے، انصاف کی شفافیت بڑھائی جا سکے نہ کہ ون مین شو ہو، آمریت کا شائبہ یا آمریت کا سلسلہ جاری رکھا جائے لیکن اس کو بھی روک لیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی نہ ہو، ہم چاہتے ہیں یہ ایوان عدلیہ کی عزت کرے لیکن جب چیف جسٹس کہتے ہیں یا پارلیمنٹ عدلیہ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی تو آئین میں اختیارات کا اصول ہے، جس میں کوئی بھی ادارہ دوسرے کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، یہ اصول عدلیہ پر بھی لاگو ہے، وہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ بالادست ہے، آئین نے پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور آئین کی روح سے پارلیمنٹ کا کردار متبرک ہے‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہمیں تو کہہ رہے ہیں کہ ڈکٹیٹ نہ کریں لیکن وہی چیز سپریم کورٹ اور عدلیہ پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ بھی کسی دوسرے ادارے کو ڈکٹیٹ نہ کرے، یہ صورت حال کا زیادہ دیر چلنا پاکستان کے آئینی انتظامات کے لیے نقصان دہ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات ہیں، آڈیو لیکس میں بھی اگر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں نوٹس لیا گیا ہے تو جس شخص نے درخواست دی ہے وہ خود ملوث ہے، آپ جرم چھپ کر یا ظاہری کریں وہ جرم ہی رہتا ہے، اگر اس کا نوٹس لیا جائے اور اس ادارے کی کمیٹی کے ذریعے یا عدلیہ کے ایک تین سینئر قابل احترام جج صاحبان شامل کیا تو وہ ان کے طبع نازک پر ناگوار گزرا اور وہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سیاست دانوں نے ماضی میں بڑی غلطیاں کی ہیں لیکن ہم اپنے معاملات پر خود کبھی اپنے مرضی کے بندے کو بٹھا دیں، اس قسم کی دو نمبری کرسکتے ہیں لیکن اس قسم کی دو نمبری نہیں دیکھی کہ آپ انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں تو آپ ایسے موضوعات یا ایسے مقدمات یا ایسے تنازعات جس میں آپ کی ذات بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہے تو آپ اس میں کس طرح بیٹھ سکتے ہیں‘۔
وزیردفاع نے کہا کہ ’ہم آپ کی عزت بڑھانا چاہتے ہیں، ایک مضبوط اور قابل احترام اور کسی بھی شک و شبہ سے بالا عدلیہ کسی بھی معاشرے کے لیے ضروری ہوتی ہے، کوئی بھی معاشرے شک و شبہ سے بالا عدلیہ کے بغیر چل نہیں سکتا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے آڈیو لیکس پر کمیشن بنایا اور دوسرا ہم نے ایکٹ پاس کیا تو اس پر کس طرح نوٹس لیا گیا، یہ کیسی روایات مرتب کر رہے ہیں، یہ روایات قابل فخر نہیں بلکہ قابل شرم ہوں گی، جو بھی ان روایات کا تخلیق کار ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی قابل شرم ہوں گی‘۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’ہماری تاریخ میں ایسے چیف جسٹسز موجود ہیں، جن کے نام لیتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے، ایسے چیف جسٹسز موجود ہیں شاید ان کی آنے والی نسلیں اپنی ولدیت بتاتے ہوئے شرماتے ہوں گے کہ ہم کس کے چشم و چراغ ہیں‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ایسی روایات نہ بنائیں جہاں آپ کے اپنے ذاتی مفادات ہوں وہاں پر آپ انصاف کا ترازو اپنے ہاتھ میں رکھیں، آج ایک درخواست اسلام آباد میں دائر ہوئی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہمارے دائرہ کار میں مداخلت ہوگی تو پھر یہ ایوان جواب دینے پر مجبور ہوگا اور جواب تگڑا ہوگا‘۔