سچ خبریں:یمن کی مزاحمتی قوتوں کی جانب سے اسرائیلی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے میزائل اور ڈرون حملے صیہونی حکومت کے لیے غیر متوقع نقصانات کا باعث بن رہے ہیں۔
یمن کی جنگ میں شمولیت کے پانچ مراحل
یمن نے غزہ پر صیہونی نسل کشی کے دوسرے مہینے میں جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، یمن نے پہلے بالواسطہ اور بعد میں براہ راست اسرائیل کے خلاف جنگی کارروائیاں کیں۔
یہ بھی پڑھیں: یمنیوں نے ایک سال سے کیسے صیہونیوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے؟صیہونی تجزیہ کار کی زبانی
صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق، غزہ کی جنگ کے آغاز سے اب تک یمن کی سرزمین سے 200 سے زائد میزائل اور 170 ڈرون اسرائیلی علاقوں پر داغے جا چکے ہیں۔
یمن کی جنگ میں شمولیت کے پانچ اہم مراحل :
1. اسرائیلی اور غیر اسرائیلی جہازوں پر حملے۔
2. امریکی اور برطانوی جہازوں کو نشانہ بنانا، جو یمن پر حملوں کے جواب میں ہوا۔
3. دشمن کے جہازوں پر بحر ہند میں حملے۔
4. آپریشن کا دائرہ بحیرہ روم تک بڑھانا۔
5. تل ابیب پر میزائل حملے۔
یمنی حملوں کی اہم خصوصیات
1. فاصلے کی اہمیت: یمن سے اسرائیلی مقبوضہ علاقوں تک حملے 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر کیے جا رہے ہیں، جو یمنی میزائلوں کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔
2. نقصانات: ان حملوں نے سینکڑوں صیہونیوں کو ہلاک اور زخمی کیا، جبکہ تل ابیب کو بڑے اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
3. صیہونی دفاعی نظام کی ناکامی: صیہونی حکومت کے دفاعی نظام جیسے آرو (پیکان) اور دیگر ایئر ڈیفنس سسٹمز یمنی میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے میں ناکام رہے۔
الجزیرہ کے مطابق، یمن کے فلسطین 2 نامی بیلسٹک میزائل تل ابیب کے قریب یافا کے علاقے میں گرے، جو صیہونی دفاعی نظام کی ناکامی کو نمایاں کرتا ہے۔
صیہونی ماہرین کی شکست کے اعترافات
صیہونی ذرائع کے مطابق، یمنی حملے اسرائیل کے لیے مسلسل ناکامیوں کا سبب بن رہے ہیں۔
صیہونی ویب سائٹ یدیعوت احرونٹ کے عسکری تجزیہ کار ران بن یشای نے اسرائیلی دفاعی نظام کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ متعدد ایئر ڈیفنس سسٹمز دشمن کے میزائلوں کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یمنی میزائل یا تو ایسے راستے سے داغے جا رہے ہیں جنہیں روکنا مشکل ہے یا ان کے وار ہیڈ راستے میں اپنا رخ تبدیل کر لیتے ہیں۔
اسی طرح، روزنامہ معاریو کے عسکری تجزیہ کار آوی اشکنازی نے واضح کیا کہ اسرائیل یمنی مزاحمتی قوتوں، خصوصاً انصاراللہ، کے خلاف کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں رکھتا۔
ان کے مطابق، اسرائیل نہ صرف یمن کے حملوں کا سامنا کرنے میں ناکام ہے بلکہ ان حملوں کی پیشگی اطلاع اور تیاری کے لحاظ سے بھی غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد یمنی حملوں میں اضافہ
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد یمنی حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
8 دسمبر کے بعد سے، جب شام کی حکومت ختم ہوئی، یمن نے تل ابیب پر 9 مرتبہ میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔
حملوں کے پیغامات اور مزاحمتی قوتوں کا نیا عزم:
1. مزاحمت ختم نہیں ہوئی
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، دشمنوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مزاحمت ختم ہو چکی ہے، تاہم یمنی حملے واضح کرتے ہیں کہ مزاحمتی قوتیں نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
2. مختلف مزاحمتی حکمت عملی
یمنی مزاحمتی قوتوں نے اپنی حکمت عملی سے ثابت کیا ہے کہ وہ صیہونی دشمن کا سامنا کرنے سے گھبراتے نہیں۔
جہاں شام کی سابق حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ٹکراؤ سے گریز کیا، وہاں یمنی قوتیں بلا جھجک اسرائیل اور حتیٰ کہ امریکہ کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔
3. مربوط قیادت اور سیاسی تنظیم
یمنی مزاحمت نے گزشتہ دو دہائیوں میں داخلی جنگوں اور سعودی قیادت میں اتحادی حملوں کا مقابلہ کیا ہے، آج صنعا انصاراللہ اور اس کے اتحادیوں کے زیر کنٹرول ہے جو یمن کا سب سے منظم سیاسی دھڑا بن چکا ہے۔
یمن کے حملے؛ صیہونی حکومت کی ناکامی کا مظہر
صیہونی حکومت، جو حماس اور لبنان کی مزاحمتی قیادت کے قتل اور لبنان میں دھماکوں جیسے اقدامات کے ذریعے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے، یمنی حملوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
یمن کے میزائل اور ڈرون حملے نہ صرف صیہونی حکومت کی عسکری اور انٹیلیجنس کمزوری کو عیاں کرتے ہیں بلکہ اس کے دفاعی نظام کی ناکامی کو بھی واضح کرتے ہیں۔
شہر حیفا، جو ایک اسٹریٹجک علاقہ ہے اور جہاں 40 امونیاک گیس کے ذخائر موجود ہی اور جہاں سے فراہمی نصف مقبوضہ علاقوں کو کو پانی کی فراہمی ہوتی ہے، صیہونی حکومت کے لیے خاص طور پر کمزور نقطہ بن چکا ہے، اگر یمنی حملے حیفا تک جاری رہے تو اسرائیل کو شدید نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔
یمن؛ فلسطین کے عرب مدافع کے طور پر ابھرتا ہوا کردار
مغربی تجزیہ کار آندریسا کرگ نے یمن کی مزاحمتی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے لکھا کہ عرب طاقتوں کی خاموشی کے دوران، یمن نے فلسطینی مقصد کا دفاع کرنے والے ایک مضبوط کردار کے طور پر خود کو پیش کیا ہے۔
یمن نے اسرائیل کے خلاف ایک ‘شبه بحری محاصرہ’ قائم کرکے اپنی مزاحمتی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ حکمت عملی نہ صرف انصاراللہ کو اندرونی حمایت فراہم کرتی ہے بلکہ خطے میں اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
صیہونی اور امریکی حملے؛ یمن کے خلاف نئی سازش
یمن کے حملوں کے ردعمل میں، صیہونی حکومت اور امریکہ نے یمن کے خلاف نئے حملے شروع کیے ہیں۔
ان حملوں کا مقصد یمن کی حکومت اور اس کی عوامی حمایت کو کمزور کرنا اور اس کے دفاعی نظام کو تباہ کرنا ہے۔
اہم حملے:
1. صیہونی حملے:
– صنعا کے پاور پلانٹس پر حملہ۔
– الحدیدہ اور الصلیف کے بندرگاہوں کو نشانہ بنانا۔
– رأس عیسی کی آئل تنصیبات پر حملہ۔
2. امریکی حملے:
– یمنی اسلحہ کے ذخائر کو تباہ کرنے کی کوشش۔
نتیجہ:
یمن، جو تاریخی طور پر ایک مضبوط مزاحمتی ریاست رہی ہے، نے تمام تر بیرونی جارحیتوں کے باوجود اپنی خودمختاری کو برقرار رکھا ہے۔ صیہونی حکومت اور امریکہ، یمن کو شام جیسا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق، یمن کی تاریخی مزاحمت اس سازش کو ناکام بنا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: یمن بنا اسرائیل کے لیے ایک بڑا مسئلہ
یمنی عوام اور حکومت کے عزائم، مزاحمتی حملوں کی شدت میں اضافے کے ساتھ، اسرائیل کے لیے سنگین اور غیر متوقع نقصانات کا سبب بن سکتے ہیں۔