ٹرمپ کا امن منصوبہ اسرائیلی قبضے کو طول دینے کی سفارتی چال: چینی میڈیا

ٹرمپ کا امن منصوبہ اسرائیلی قبضے کو طول دینے کی سفارتی چال: چینی میڈیا:

?️

سچ خبریں:چینی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح ٹرمپ کا صلح منصوبہ اسرائیلی قبضے کے تسلسل پر سفارتی پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

چینی نشریاتی ادارے سی جی ٹی این نے رپورٹ دی ہے کہ ٹرمپ کا 20 نکاتی صلح منصوبہ دراصل اسرائیلی قبضے کو برقرار رکھنے کی ایک سیاسی چال ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ امن نہیں بلکہ فلسطینیوں کی جبری تسلیم و اطاعت پر مبنی ایک فریبِ دیپلومیسی ہے، جسے نتن یاہو نے اپنے مقاصد کے لیے تبدیل کیا۔

یہ بھی پڑھیں:غزہ معاہدے کا اعلان مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کو یقینی بنانے کا تاریخی موقع ہے

سی جی ٹی این کا کہنا ہے کہ جب تک واشنگٹن نتن یاہو کی رکاوٹوں کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کرتا اور جب تک فلسطینی عوام کے حقوق کو مذاکرات کا موضوع نہیں بلکہ ایک ناقابلِ تبدیل اصول کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک ہر نام نہاد امن منصوبہ محض قبضے کے چہرے پر ایک سفارتی نقاب ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 4 اکتوبر (12 مهر) کو اسرائیل کی جانب سے ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ کے 20 نکاتی صلح منصوبے کے پہلے مرحلے پر فوری عمل درآمد کے اعلان کے ساتھ ایک بار پھر سیاسی تماشہ برپا ہوا، یہ اعلان حماس کے ردعمل کے فوراً بعد آیا مگر حقیقت میں یہ منصوبہ امن کے بارے میں نہیں بلکہ سیاسی دباؤ اور اسرائیلی مقاصد کو چھپانے کے لیے تھا۔

چینی تجزیہ کاروں کے مطابق، طنز یہ ہے کہ وہ منصوبہ جو ٹرمپ نے پیش کیا وہ وہی نہیں تھا جو عرب رہنماؤں کے ساتھ بند کمرے میں طے پایا تھا، پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق دار نے اشارہ دیا کہ جو دستاویز 29 ستمبر کو ٹرمپ اور نتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں دکھائی،
اسے عوامی اجرا سے پہلے کئی بار ترمیم کیا گیا حتیٰ کہ صیہونی روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل نے اعتراف کیا کہ نتن یاہو نے کلیدی ترامیم کیں جن سے متن مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔

یہی وجہ تھی کہ وائٹ ہاؤس کے مشرقی ہال میں کوئی بھی عرب رہنما موجود نہیں تھا،نہ سعودی، نہ اماراتی، نہ مصری، نہ قطری،سب کچھ اس حقیقت کی گواہی دیتا تھا کہ جو منصوبہ وہ دستخط کر چکے تھے،ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک بالکل مختلف نسخہ پیش کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کو امن منصوبہ کہنا خود ایک نرمیِ لفظی ہے،یہ دراصل ایک قیدیوں کا معاہدہ ہے جو صلح کی زبان میں زبردستی تھوپا گیا،اس متن میں حماس کے مکمل خلعِ سلاح، غزہ کی حکومتی خودمختاری کی واگزاری اور اسرائیلی شرائط کی بلاچوں و چرا تسلیم شامل ہے لیکن غزہ کے عوام کے لیے نہ کوئی حقیقی اختیار، نہ خودمختاری کا راستہ، یہ ایک جبری تسلیم ہے جو صلح کے لباس میں پیش کی گئی ہے۔

سی‌جی‌ٹی‌ان کے مطابق اگر اس پردے کو ہٹا دیا جائے تو واضح ہوتا ہے کٹرمپ اور نتن یاہو کا مقصد مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسرائیلی شرائط کے مطابق اس کی مینیجمنٹ ہے،یہ منصوبہ اسرائیل کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے جنگی اہداف کو سیاسی قیمت چکائے بغیر حاصل کرے،ایک منصف ناظر کی نظر میں ایسا معاہدہ جو قابض کو انعام اور مظلوم کو ذلت دے، صلح نہیں بلکہ جبر ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے میں نہ اسرائیلی فوجی قبضے کے خاتمے کی بات ہے، نہ ہی فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کی،یہی دو اصول اس 80 سالہ تنازع کے مرکز میں ہیں اور ان کے بغیر کوئی بھی منصوبہ محض زخم پر عارضی پٹی کے برابر ہے۔

دریں اثنا، انسانی المیہ جاری ہے،یونیسف کے مطابق دو سالہ جنگ کے دوران روزانہ اوسطاً 28 فلسطینی بچے غزہ میں شہید ہو رہے ہیں۔
کاخِ سفید کی کوئی بھی لفاظی اس دردناک حقیقت کو چھپا نہیں سکتی،خود نتن یاہو نے بھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ وہ مستقبل میں مزید حملوں کا اختیار محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔

اسرائیل کے سابق سفیر مائیکل اورن نے سی این این سے گفتگو میں کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں نہیں بلکہ محض مذاکرات کے لیے ایک راستہ ہے،خود ٹرمپ نے بھی اعتراف کیا کہ نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے مخالف ہونے میں بہت واضح ہے،یہ وہی پرانی پالیسی ہے؛ فلسطینی قیادت میں تفرقہ ڈالنا، اسے کمزور کرنا اور قبضہ جاری رکھنا،شین بیت کے سابق سربراہ آمی آیالون نے انکشاف کیا کہ 7 اکتوبر سے پہلے بھی اسرائیل نے قطر سے حماس کے لیے فنڈز کی منتقلی کی اجازت دی تھی یعنی اسی گروہ کو مضبوط کیا جسے اب وہ ختم کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔

چینی رپورٹ کے مطابق اسرائیل درحقیقت دو ریاستی حل نہیں چاہتا،بلکہ وہ غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر مکمل کنٹرول کے درپے ہے ، وہ علاقے جنہیں اقوام متحدہ برسوں سے غیر قانونی طور پر قابض قرار دے چکی ہے،اسرائیلی میڈیا کے مطابق موساد فی الوقت سومالیہ اور سوڈان کے ساتھغزہ کے فلسطینیوں کی جبری آبادکاری پر بات کر رہا ہے جو امن نہیں بلکہ آبادیاتی انجینئرنگ کی کوشش ہے،حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کر دیا اور خلعِ سلاح و حقِ حکومت سے محرومی کی شقوں کو قبول نہیں کیا لیکن نتن یاہو بے پرواہ رہا،وہ مصالحے کا نہیں بلکہ مکمل تسلیم کا خواہاں ہے۔

رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کا خود کو امن کا علمبردار ظاہر کرنا اور نوبل انعام کے لائق قرار دینا، اس پورے ڈرامے کو مزید مضحکہ خیز بناتا ہے،ریگن نے 1982 میں اسرائیل کے وزیراعظم مناخیم بیگن پر لبنان پر بمباری روکنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا مگر ٹرمپ نے کبھی نتن یاہو کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔

مزید پڑھیں:صہیونی منصوبہ گریٹر اسرائیل کا مستقبل؛ مشرقِ وسطیٰ میں نئے چیلنجز اور عالمی تبدیلیاں

حقیقت یہی ہے کہ امریکہ اگر چاہے تو اپنی بے مثال سیاسی قوت سے ایک منصفانہ معاہدہ تشکیل دے سکتا ہے جس میں اسرائیل کے وجود اور فلسطین کے حقِ خودارادیت کو متوازن حیثیت حاصل ہو لیکن موجودہ امریکی رویہ اس 1947 کے اقوام متحدہ کے وعدے سے بہت دور ہے،جب تک واشنگٹن نتن یاہو کی کارشکنی کے خلاف جرأتِ اقدام نہیں دکھاتا، ہر امن منصوبہ محض قبضے کے تسلسل کا ایک نیا باب رہے گا۔

مشہور خبریں۔

ترکی اور اسرائیلی حکومت کے لیے دو اہم علاقائی چیلنجز پر ایک نظر

?️ 21 ستمبر 2025سچ خبریں: صیہونی حکومت کے حکام امریکی دباؤ کے ذریعے شام کے

ریلوے کا عیدالفطر پر 5 سپیشل ٹرینیں چلانے کا اعلان، شیڈول جاری

?️ 20 مارچ 2025لاہور: (سچ خبریں) پاکستان ریلویز نے عید الفطر کے موقع پر 5

مفتی اعظم عمان کی فلسطینی مزاحمت کی عسکری صلاحیت میں اضافے پر مبارکباد

?️ 6 مئی 2023سچ خبریں:صہیونی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی سے فائر کیے

اسرائیل کا ٹرمپ کی فوری جنگ بندی کی اپیل کے باوجود غزہ پر حملہ 

?️ 4 اکتوبر 2025 غزہ کی پٹی گزشتہ شب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیلی

اسرائیلی فوج: نیتن یاہو کا اتحاد بغیر جنگ کے ٹوٹ جائے گا

?️ 24 اگست 2025سچ خبریں: اسرائیل کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ وزیر اعظم

’تیرے بن‘ ڈراما: خاتون کا مرد کے منہ پر تھوکنا اور ممکنہ ازدواجی عصمت دری

?️ 20 مئی 2023کراچی: (سچ خبریں) پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے شائقین کو

منظم شیطانی مافیا(8) عراق میں ریاض کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی

?️ 20 فروری 2023سچ خبریں:گزشتہ دو دہائیوں کے مختلف ادوار میں اپنے شمالی پڑوسی کی

یوکرائن بحران اور آزاد دنیا کا دوغلہ پن

?️ 7 مارچ 2022سچ خبریں:یوکرائن میں پیش آنے والے واقعات نے آزادی اور انسانی حقوق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے