صیہونی حکومت کی نتساریم محور سے پسپائی کی اہمیت

صیہونی حکومت کی نتساریم محور سے پسپائی کی اہمیت

سچ خبریں:صیہونی ریاست کی فوج کی محور نتساریم سے پسپائی تل ابیب کی اسٹریٹجی ناکامی ہے اس لیے کہ مقصد غزہ کی پٹی کو تقسیم کرنا اور اس کے شمالی علاقوں پر قبضہ کرنا تھا۔

فوجی اور اسٹریٹجک تجزیہ کار فائر الدویری نے الجزیرہ نیوز چینل کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صیہونی ریاست کی فوج کی محور نتساریم سے پسپائی کے اقدام کا جائزہ لیا۔

یہ بھی پڑھیں: 1948 کی جنگ کے بعد سے صیہونیوں کے لیے سب سے خطرناک شکست

انہوں نے اسے جنگ غزہ کے تناظر میں ایک اسٹریٹجک تبدیلی قرار دیا اور کہا کہ یہ واقعہ تل ابیب کی اسٹریٹجی کو ناکام بنا دیتا ہے جس کا مقصد غزہ کی پٹی کو تقسیم کرنا اور اس کے شمالی علاقوں پر قبضہ کرنا تھا۔

الدویری نے غزہ میں فوجی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی قبضہ کاروں کا مقصد اس خطے میں اپنی مستقل موجودگی کو مضبوط بنانا تھا، لیکن تنازعات کے دباؤ اور سیاسی معاہدوں کی وجہ سے انہیں یہ پسپائی اختیار کرنی پڑی۔

انہوں نے مزید کہا کہ صیہونی قبضہ کاروں نے پہلے محور نتساریم کی چوڑائی کو 80 کلومیٹر تک پھیلا دیا تھا اور اس کی گہرائی 5 سے 7 کلومیٹر تھی، اس علاقے میں انہوں نے 4 اہم مقامات اور 4 اسپورٹ پوائنٹس قائم کیے تھے۔

الدویری نے بتایا کہ اگرچہ صیہونی فوج نے اس خطے میں اپنی مستقل موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے تعمیر کیے تھے، لیکن ان میں سے زیادہ تر ڈھانچے موبائل اور منتقل کرنے کے قابل تھے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ شروع سے ہی اس محور سے پسپائی کے امکان کو مدنظر رکھ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ معاہدے نے صیہونی قبضہ کاروں کو اس محور سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے، جیسا کہ وہ محور فلادلفیا یا غیر جانبدار علاقے میں بھی موجود نہیں رہ سکتے اور انہیں وہاں سے بھی پسپائی اختیار کرنی ہوگی۔

الدویری نے صیہونی ریاست کی اسکیم کو غزہ کے شمالی علاقوں پر ابتدائی مراحل میں قبضہ کرنے کی کوشش قرار دیا اور واضح کیا کہ مزاحمتی تحریک نے صیہونیوں پر ایک مختلف حقیقت مسلط کی ہے، جس نے انہیں اپنے منصوبوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ممکن تھا کہ صیہونی قبضہ کار وقت گزاری یا پسپائی میں تاخیر کی کوشش کرتے، لیکن آخر کار انہیں جنگ بندی کے 22 ویں روز اس محور کو چھوڑنا پڑا۔

الدویری نے اس پسپائی کے ممکنہ اثرات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ غزہ کے شہریوں کی نقل و حرکت کو آسان بنائے گا اور صیہونی قبضہ کاری کی وجہ سے موجود رکاوٹوں کو ختم کر دے گا۔

انہوں نے اس واقعے کے سب سے اہم اثر کو فلسطینیوں کی علاقائی سالمیت کی بحالی قرار دیا اور زور دیا کہ موجودہ حالات صیہونی قبضہ کاروں کے ان منصوبوں سے بالکل مختلف ہیں جو وہ فلسطینی قوم پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔

الدویری نے کہا کہ محور نتساریم سے پسپائی صرف ایک فوجی اقدام نہیں ہے، بلکہ اس کے سیاسی اور اسٹریٹجیک پہلو ہیں، یہ صیہونیوں کے غزہ کے حوالے سے منصوبوں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ مزاحمتی تحریک کے عزم اور دشمن کے ساتھ مذاکرات ایک ساتھ میدان میں نئے معادلات پیدا کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: صیہونیوں کی شکست کا ذمہ دار کون؟

یاد رہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی19 جنوری سے شروع ہوئی تھی اور اس کے تین مراحل ہیں، ہر مرحلہ 42 دن تک جاری رہے گا، پہلے مرحلے کے وسط میں قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں دوسرے اور تیسرے مرحلے کے آغاز کے لیے مذاکرات شروع ہونے تھے، لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے