سچ خبریں:متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ سیاسی ، معاشی ، سلامتی یہاں تک کہ کھیلوں اور ثقافتی معاہدوں پر دستخط کرنے والا پہلا ملک ہے تاہم اب ہر طرف سے چل رہی ہواؤں کی ایسی صورتحال ہے جس کو کوئی نہیں چاہتا ہے۔
رائے الیوم انٹر ریجنل اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل تعلقات کا ہنی مون اپنے آخری ایام سے گزر رہا ہے اور اس کا خاتمہ ہو رہا ہے لہذا یہ خطہ انتہائی اہم مراحل سے گزرے گا خاص طور پر جب فلسطینیوں کے حقوق کو نظرانداز کرنے کی قیمت پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے خلیج فارس کے متعدد عرب ممالک اور شیخوں کو بخار چڑھا ہوا ہے۔
متحدہ عرب امارات جو اسرائیل کے ساتھ سیاسی ، معاشی ، سلامتی یہاں تک کہ کھیلوں اور ثقافتی معاہدوں پر دستخط کرنے والا پہلا ملک ہے ، اب ایسی مشکل صورتحال میں ہے کہ ہر طرف سے ایسی آندھی چل رہی ہے جسے کوئی نہیں چاہتا ہے اورپچھلے مہینوں میں اس نے جو کاتاہے وہ ہوا ہوتا نظر آرہا ہے،اسرائیل کے توسط سے خلیج فارس کے تیل کی یورپ میں منتقلی، یہ وہ موضوع ہےجس نے حالیہ دنوں میں ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا کیا ہے اور درحقیقت یہ ابوظہبی اور تل ابیب کے مابین پردے کے پیچھے ایک بڑا سفارتی بحران پیدا کرنے والا ہے۔
اگرچہ میڈیا نے بحران پر قابو پانے کے مقصد سے دونوں فریقوں کے مابین رابطے دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں بار بار بات کی ہے ، لیکن اس میں سب سے اہم گذشتہ جمعہ کواسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کا محمد بن زائدکو فون کرنا ہے جس میں تیل کی منتقلی کے معاہدے سے متعلق متحدہ عرب امارات کو درپیش بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
واضح رہے کہ خلیج فارس کا تیل اسرائیل کے ذریعہ یورپ منتقل ہونے کے معاہدے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کو اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے جس پر ماحولیاتی تنظیمیں زور دے رہی ہیں نیز صیہونی وزارت خزانہ سمیت دیگروزارتوں میں سے کوئی بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ ایشیاء یورپ پائپ لائن منصوبے کی تعمیر کے ذمہ دار کا بھی کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے اور وزارت کو دی جانے والی ایک درخواست کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس پر غور نہیں کیا گیا ہے۔