سچ خبریں: امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سربراہنے طلباء کے احتجاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی موجودگی مظاہروں کو ختم نہیں کرسکتی۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سربراہ نے طلباء کے احتجاج کے بارے میں کہا کہ پولیس کی مدد طلب کرنے سمیت ہمارے تمام اقدامات احتجاج کو ختم نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ میں طلباء کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر روس کا ردعمل
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سربراہ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ہم دارالحکومت کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور پولیس یونیورسٹی کے اندر اور اس کے ارد گرد اپنی موجودگی میں اضافہ کرے گی۔
واضح رہے کہ غزہ کے عوام کے خلاف قابض صیہونی حکومت کے بے شمار جرائم اور تقریباً 35 ہزار بے گناہوں کے قتل کے بارے میں جاننے کے بعد امریکہ بھر کی یونیورسٹیاں اس حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا میدان بن گئی ہیں۔
اس دوران مظاہروں کے متعدد امریکی یونیورسٹیوں تک پھیلنے کے ساتھ ساتھ ایک اہم ترین مسئلہ جو اپنی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے وہ امریکی حکومت اور اس ملک کی پولیس کی پالیسیاں ہیں۔ اس ملک میں حکومت اور پولیس نے مظاہرین کے مطالبات کی پرواہ کیے بغیر صرف وسیع پیمانے پر جبر اور گرفتاری کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے ابتدائی دنوں سے ہی امریکی معاشرے میں اس واقعے پر مختلف ردعمل دیکھنے کو مل رہے تھے، مختلف سروے غزہ کے لوگوں کے لیے امریکی حمایت میں غیر معمولی اضافہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
مارچ 2024 کے گیلپ پول کے مطابق زیادہ تر امریکی غزہ میں قابض حکومت کے اقدامات کو منظور نہیں کرتے،صیہونی حکومت کے اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد نومبر 2023 میں 45 فیصد سے بڑھ کر 55 فیصد ہو گئی۔
75% ڈیموکریٹس تل ابیب کے اقدامات کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں، ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے رائد جرار کا خیال ہے کہ مذکورہ سروے بائیڈن حکومت کی پالیسی اور غزہ میں قابض حکومت کے اقدامات کے بارے میں زیادہ تر امریکیوں کے خیالات کے درمیان علیحدگی کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ کہ امریکی حکومت کی خارجہ پالیسی ووٹرز کی توقعات کے مطابق نہیں۔
امریکی نوجوانوں کی فلسطینیوں کی حمایت زیادہ واضح ہو گئی ہے، اپریل 2024 میں پیو پول (PEW) کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 30 سال سے کم عمر امریکی بالغوں میں سے ایک تہائی فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، صرف 14٪ صہیونیوں کے حق میں ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی نوجوان صہیونیوں کے مقابلے میں فلسطینی عوام کے بارے میں زیادہ سازگار نظریہ رکھتے ہیں اور 30 سال سے کم عمر کے 10 میں سے چھ امریکی فلسطینی عوام کے بارے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیں، نوجوان امریکیوں میں سے 34% حماس کی طرف سے صیہونی حکومت سے لڑنے کی وجوہات کو درست سمجھتے ہیں۔
امریکی طلباء کی طرف سے فلسطینی عوام کی حمایت میں احتجاج کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹیوں میں شروع ہوا، ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے مظاہرین نے قابض حکومت کو جنگ کی مکمل ذمہ دار قرار دیا۔
یہ احتجاج رفتہ رفتہ اس ملک کی بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں جیسے ایموری، مشی گن، براؤن، ہمبولٹ پولی ٹیکنک، برکلے، سدرن کیلیفورنیا، نیویارک، ییل، کولمبیا، میساچوسٹس، ٹیکساس، مینیسوٹا وغیرہ تک پھیل گئے، اب تک 79 امریکی یونیورسٹیاں قدس کی قابض حکومت کے خلاف مظاہروں میں شامل ہیں، طلباء کی موجودگی کے علاوہ بعض یونیورسٹیوں میں فلسطینی حامی پروفیسرز بھی احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
امریکی طلباء کا بنیادی مطالبہ فلسطینی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے، جس کے دائرہ کار میں انہوں نے غزہ میں مستقل جنگ بندی، قابض حکومت کو امریکی حکومت کی فوجی امداد کے خاتمے اور مقبوضہ علاقوں کی یونیورسٹیوں کی ہتھیاروں کے کمپلیکس کے ساتھ سرمایہ کاری کے عمل کو ترک کرنا۔
مزید پڑھیں: فلسطینی حامیوں میں آئرش طلباء بھی شامل
یاد رہے کہ مظاہروں کے بڑھتے ہی کچھ یونیورسٹیوں کے منتظمین نے طلباء کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی، جیسے رہوڈ آئی لینڈ کی ریاست میں براؤن یونیورسٹی کے حکام نے اعلان کیا کہ وہ اکتوبر 2024 میں مقبوضہ فلسطین میں سرمایہ کاری روکنے کے وعدے کے ساتھ فلسطین کے حامی طلباء کے ساتھ ایک معاہدہ کر چکے ہیں جس کے بعد طلباء نے اپنا دھرنا ختم کرتے ہوئے اس معاہدے کو ایک بے مثال فتح اور بہت بڑا اعزاز سمجھا۔