سچ خبریں: جرمنی میں اپنے اجلاس کے پہلے دن، G7 رہنماؤں نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے ملٹی بلین ڈالر کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کے سرکاری اور نجی انفراسٹرکچر کے لیے 600 بلین ڈالر مختص کرنے پر اتفاق کیا۔
سنڈے مارننگ ہیرالڈ کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن نے نوٹ کیا کہ امریکہ نے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں سرمایہ کاری کو سپورٹ کرنے کے لیے اگلے پانچ سالوں میں وفاقی اور نجی فنڈز میں 200 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ مجھے واضح کہنا پڑے گا کہ یہ گرانٹ یا خیراتی نہیں ہے یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس سے سب کو فائدہ ہوگا۔
یوروپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے بھی اس بات پر زور دیا کہ یورپی ممالک اسی پانچ سال کی مدت میں مختلف منصوبوں پر 300 بلین ڈالر خرچ کریں گے تاکہ 2013 میں چینی صدر شی جن پنگ کے شروع کردہ چائنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک قابل عمل متبادل فراہم کیا جا سکے۔
چین مختلف ممالک کو قرضے دے کر ان کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور اس تعاون کی ایک مثال شاہراہ ریشم کا نیا منصوبہ ہے جسے ون بیلٹ – ون روڈ بھی کہا جاتا ہے۔ چین نے اس بڑے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے اور بہت سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بنیادی سرمایہ کار ہےاور کچھ کو قرض بھی دیا ہے۔
مغربی ممالک کا دعویٰ ہے کہ چین اس منصوبے سے دراندازی اور کمزور ممالک پر انحصار کرنا چاہتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اٹلی، کینیڈا اور جاپان کے رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے اپنے منصوبوں کے بارے میں بات کی جن میں سے کچھ کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس منصوبے میں حصہ لیں گے۔