سچ خبریں: چین کے ایک سینیئر انٹیلی جنس عہدیدار نے پیر کو بتایا کہ ایک چینی شہری کے خلاف جاسوسی کا مقدمہ جس پر امریکی دفاعی ادارے کے ساتھ کام کرنے کا الزام ہے، جنوب مغربی چینی شہر چینگڈو کی ایک عدالت میں بھیج دیا گیا ہے۔
روئٹرز خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے سرکاری چینل سی سی ٹی وی پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک چینی شہری جو 2013 میں ایک نامعلوم امریکی دفاعی ادارے کے لیے کام کرتی تھی، نے خفیہ معلومات پہنچانے کے لیے ایک امریکی یونیورسٹی کے ماہرین سے ملاقات کا بہانہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کے ہاتھوں سفارتکاروں کی جاسوسی پر چین کا اظہار تشویش
چین کی وزارت قومی سلامتی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جاسوسی کی سرگرمیاں دھوکہ دہی، فتنہ اور سازش کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔
سی سی ٹی وی ٹی وی نے مزید کہا کہ چینی جاسوس ہوئی کے قریب ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر نے اس کا تعارف ایک ایسے شخص سے کرایا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک کنسلٹنگ کمپنی کا ملازم ہے جبکہ وہ دراصل ایک امریکی انٹیلی جنس ایجنٹ تھا جس نے اس کمپنی کو کور کے طور پر استعمال کیا۔
اس وقت کے دوران جب ہوئی اس کمپنی میں ایک مشاورتی ماہر کے طور پر ملازم تھی، اسے ہر بار معلومات فراہم کرنے کے لیے 600 سے 700 ڈالر ادا کیے جاتے تھے،اس کے بعد امریکی انٹیلی جنس سروس نے اپنے بنیادی مقصد اور ارادے کی وضاحت کی اور اس نے اپنی بیوی اور بچے کی حفاظت کے لیے مسلسل تعاون کی شرائط کو قبول کیا۔
کئی ملاقاتوں میں ہونے والے معاہدے کے مطابق اس چینی شہری سے اعلیٰ سطح پر خفیہ دستاویزات طلب کی گئیں جس کے بدلے میں اسے ایک ہزار ڈالر دیے گئے، یہ تعاون 2014 تک جاری رہا جب ہوئی چین واپس آگئی،اس نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور امریکہ کو چین کی دفاعی صنعت اور فوج کے شعبے کی خفیہ قومی معلومات فراہم کیں۔
مزید پڑھیں: چین ہمارے اہم بنیادی ڈھانچے کو ہیک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:امریکہ
چینی حکومت کی طرف سے پوچھ گچھ کے بعد، ہوئی کو جولائی 2021 میں گرفتار کیا گیا جس کے بعد اس پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا۔
یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں چین نے جاسوسی کے الزام میں درجنوں چینی اور غیر ملکی شہریوں کو گرفتار اور حراست میں لیا ہے۔