سچ خبریں:عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے رائے الیوم کے اداریے میں لکھا ہے کہ ویانا مذاکرات نتیجہ خیز ہوں یا کسی تعطل کا شکار ہوجائیں تب بھی ایران سب سے بڑا فاتح ہے اور ایرانی حکام ریاستہائے متحدہ سے خوفزدہ نہیں ہیں۔
انٹر ریجنل الیکٹرانک اخبار رائے الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے اداریہ میں ویانا میں ایران کے خلاف پابندیاں ہٹانے سے متعلق مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہےکہ ویانا مذاکرات کا ساتواں دور اپنی سابقہ مثالوں کی طرح ختم ہوا لیکن اسرائیل کیوں خوفزدہ ہے؟ نیزحالیہ دنوں میں تل ابیب ایران کے خلاف جنگ کے لیے اپنی تیاری کو تیز کرنے کی بات کیوں کر رہا تھا؟ ان مذاکرات پر تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان تنازع کی حقیقت کیا ہے؟ اگر ایران کو نشانہ بنایا گیا تو اس جملے کا کیا ردعمل ہو گا؟
انہوں نے مزید کہاکہ ویانا مذاکرات کی صورتحال سے متعلق بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ چاہے مذاکرات کامیابی سے ختم ہوں یا تعطل کا شکار ہو جائیں، ایران اب تک کا سب سے بڑا فاتح رہا ہے کیونکہ اگر یہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوتے ہیں اور ایران کی شرط پوری ہوتی ہے اس لیے کہ اس پر عائد پابندیاں مکمل طور پر اٹھا لی جائیں گے،ایران کے منجمد اثاثوں میں سے 200 بلین ڈالر فوری طور پر ملکی خزانے میں ڈالے جائیں گے، عالمی منڈیوں میں ایران کی تیل کی برآمدات معمول پر آجائیں گی، تہران اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام برقرار رکھے گا اور ڈرون بنائے گانیز علاقائی سطح پر اپنا کردار بھی ادا کرے گا۔
دوسری صورت میں مذاکرات کی ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ ایران صورتحال کو بدلنے اور کسی بھی ممکنہ اسرائیلی مداخلت کو روکنے کے لیے یورینیم کی اعلیٰ سطح یعنی 90 فیصد افزودگی کا عمل جاری رکھے گا، تو دونوں صورتوں میں ایران جیت جائے گا، رائےالیوم اخبار کے چیف ایڈیٹر نے مزید کہاکہ حالیہ دنوں میں غاصب صیہونی حکومت نے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکیوں کو اس خوف سے تیز کر دیا ہے کہ ویانا مذاکرات ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کا باعث بن سکتے ہیں، اسی وجہ سے امریکی حکومت نے تل ابیب کو ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی سے خبردار کیا، خاص طور پر موساد کے سربراہ کے ان الزامات کے بعد کہ اس نے ایران کو کسی بھی طرح سے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا وعدہ کیا تھا،انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایران جوہری وار ہیڈ بنانے یا تہران پابندیاں ہٹانے کے لیے پیسے بٹورنے سے زیادہ ایران کی یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
عطوان نے مزید لکھا کہ اس مسئلہ کو لے کر ہم امریکہ اسرائیل تعلقات میں ایک بحران کا مشاہدہ کر رہے ہیں اورجمعرات کو امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی ٹیلی فون کال میں اس بحران کو مزید اجاگر کیا گیا۔