سچ خبریں: یمنی مسلح فوج کی جانب سے کل صبح 2000 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ صرف چند منٹوں میں طے کرنے والے بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا گیا جس سے مقبوضہ علاقوں پر خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔
القدس العربی اخبار نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ یمن کی تحریک انصار اللہ نے صیہونی حکومت کو ایک بار پھر حیران کر دیا۔ یہ منفرد میزائل حملہ حالیہ ہفتوں میں ایک کامیاب ڈرون حملے کے بعد کیا گیا ہے۔ ان 2 حملوں سے قبل عراقی گروپوں کے تعاون سے مقبوضہ شہر ایلات کے خلاف بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے ایک اور کامیاب آپریشن کیا گیا۔ اس کے علاوہ مقبوضہ علاقوں میں ایک جاسوسی مرکز نے یمن کی جانب سے الحدیدہ بندرگاہ پر اس حکومت کے حملے کے جواب میں شام کے علاقوں کو استعمال کرتے ہوئے اور صیہونی فوجیوں کو پکڑنے کے لیے زمینی حملے کے منصوبے کی اطلاع دی ہے۔ کل کے آپریشن کی اہمیت یہ ہے کہ یمن نے دکھایا کہ اس کے پاس اس قسم کے طاقتور میزائل ہیں۔ وہ میزائل جنہیں صیہونی حکومت کا سیکورٹی سسٹم مار گر نہیں سکا۔
روزنامہ رائی الیوم نے خطے کی پیش رفت کے بارے میں لکھا ہے کہ صیہونی دشمن کے ساتھ جنگ کی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کا محور طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ صیہونی حکومت اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے جو دراصل امریکہ کے اہداف ہیں اور دوسری طرف مزاحمت کا محور طاقت اور صلاحیت کے بام عروج پر نمودار ہوا ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس درست اسٹریٹجک ہتھیار بھی ہیں۔ جنگ کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ اس میدان میں اپنی شکست دیکھ کر تل ابیب نے شام میں کمانڈو آپریشن کے بارے میں جھوٹی داستانیں پھیلانا شروع کر دیں اور ایران نے جلد ہی ان جھوٹے دعوؤں کو بدنام کر دیا۔
شام کے اخبار الثورہ نے یوکرین کے بارے میں لکھا ہے کہ آج یورپ اپنا تمام سرمایہ یوکرین میں جنگ کے فوجی اخراجات پر خرچ کرتا ہے۔ یہ تبدیلی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی بار ہوئی ہے۔ جب یورپی حکومتوں نے اپنے فوجی بجٹ میں کمی کی تھی لیکن آج جنگ بندی کا دور آچکا ہے اور امریکہ یوکرین کے راستے روس کے ساتھ جنگ میں یورپی حکومتوں کو ڈیڈ لاک میں ڈال کر امریکی شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے یورپی شہریوں اور ان کی فلاح و بہبود کو قربان کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شام کے اخبار الوطن نے یمن میں آپریشن کے بارے میں لکھا ہے کہ گزشتہ سال 7 اکتوبر کی صبح یمن سے آنے والے زلزلے سے مقبوضہ علاقوں کے مکین ایک بار پھر حیران رہ گئے۔ یمن کا بیلسٹک میزائل جسے اس کے رازوں کے ایک چھوٹے سے حصے کے علاوہ جاری نہیں کیا گیا، کوئی عام میزائل نہیں ہے بلکہ یہ تل ابیب کے خلاف جنگ کے پانچویں مرحلے کے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے۔ الحدیدہ کے خلاف اسرائیل کی جارحیت پر صنعاء کا ردعمل تاحال سامنے نہیں آیا۔ اس میزائل کو مقبوضہ علاقوں تک پہنچنے کے لیے صرف 11 منٹ درکار ہیں، اس لیے اگر اسی نوعیت کے یا اس سے زیادہ جدید قسم کے میزائلوں کی ایک بڑی تعداد فائر کی جائے تو کیا ہوگا، اس کے علاوہ یمن نے ابھی تک اپنی تمام تر صلاحیتیں ظاہر نہیں کی ہیں۔ اس میزائل کو فائر کرنے کا مقصد مقبوضہ زمینوں کو مادی اور انسانی نقصان پہنچانا نہیں تھا بلکہ یہ صرف ایک آزمائش تھی۔ یقیناً اس دوران امریکہ بھی بہت پریشان ہے کیونکہ ایک میزائل جو تل ابیب کو اس فاصلے سے نشانہ بنا سکتا ہے وہ یقینی طور پر خطے میں امریکی پوزیشنوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
المقریب العراقی اخبار نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ جب کہ بیشتر عرب اور اسلامی ممالک نے فلسطین کے کاز سے منہ موڑ لیا ہے اور مزاحمت کے محور غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ خطے میں تل ابیب کے خلاف اپنے حملے اور خصوصی آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک لمحہ بھی عہد اور معاہدے سے مظلوموں کی حمایت میں پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ تل ابیب کو نشانہ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں ہے۔