سچ خبریں:ایک صیہونی جنرل نے عرب اور مسلم ممالک کی اسرائیلیوں سے نفرت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے شائقین نے اپنے رویے سے ثابت کیا کہ ان کے اور عرب حکومتوں کے طرز عمل کے درمیان بہت بڑا فرق ہے جنہوں نے ہمارے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
دنیا بھر کی عرب اور مسلم اقوام کی فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین کے ساتھ یکجہتی میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں صیہونی قبضے کو مسترد کیے جانے کے بعد ایک اسرائیلی جنرل نے کہا کہ مختلف عالمی عہدیداروں کی شاندار تقاریر اور شاندار تقریبات سے قطر میں ہونے والا ورلڈ کپ نے اسرائیل کے ساتھ متعدد عرب ممالک کے سجھوتہ کرنے کے اقدام کے بارے میں عرب ممالک کی عوام کی حقیقی رائے اور نظریے کو ظاہر کردیا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معماول پر لانے کے معاہدوں کی بنیادیں متزلزل اور ناہموار ہیں۔
قابض حکومت کی ملٹری انٹیلی جنس سروس (امان) میں فلسطینی شاخ کے سابق سربراہ میخائیل میلشٹائن نے اعلان کیا ہے کہ قطر میں ورلڈ کپ کے آغاز کو ایک ہفتہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد اسرائیلیوں کی اجتماعی یاد میں جو تصاویر اب بھی باقی ہیں وہ فلسطینی پرچم لہرانے والے عرب ممالک کے شائقین اور قطری شہریوں کی طرف سے اسرائیلی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی تصاویر ہیں جس میں جب انہیں یہ پتا چلتا ہے کہ ان کا انٹرویو کرنے والا رپورٹر اسرائیلی ہے تو اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، اس طرح کے واقعات صیہونی متعدد حلقوں اور رائے عامہ میں بہت تشویشناک ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قطر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نارملائزیشن کی طرف عربوں کے نقطہ نظر کی واضح تصویر ہے کیونکہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران اسرائیلی سڑکوں پر جب عرب اقوام سے ملتے ہیں تو ان لوگوں کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں ان کی حکومتوں اور ان کے رویے میں کتنا فرق ہے۔
زیادہ تر عرب دانشور اور اقوام اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں اور اسرائیلیوں کو ثقافتی یا سماجی تقریبات میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، وہ عربوں کی اس قلیل تعداد پر بھی اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں جو سیاحوں کے طور پر اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کا سفر کرتے ہیں،صہیونی جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ نے اسرائیلیوں کو یہ سمجھایا کہ ایک بڑی دیوار ہے جو ایک نیا مشرق وسطیٰ بنانے یا عرب دنیا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کی ان کی کوششوں میں رکاوٹ ہے، اب اسرائیل اپنے پاس موجود آدھے بھرے کپ سے ہی خود کو تسلی دے سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خلیج فارس کے ممالک نیز مصر، اردن اور مراکش کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات قائم کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے، تاہم اسرائیل ان تعلقات کو عرب معاشروں میں منتقل کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی بنیادی وجہ حالیہ برسوں میں پیدا ہونے والے سیاسی حالات ہیں، جن کا مرکز (اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو مسترد کرنے کا ذریعہ) ایران ہے، اس صیہونی سکیورٹی عہدہدار نے مزید کہا کہ بعض عرب ممالک اپنے مفادات اور روایتی ممنوعات کے سائے میں ہم سے بات چیت سے انکار کرتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ فلسطین کے حل تک پہنچنے سے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو درست نہیں سمجھتے، موجودہ حالات میں عرب ممالک فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے بالخصوص مسجد اقصیٰ کے حوالے سے حساس ہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نئی اسرائیلی کابینہ کو کم از کم مستقبل قریب تک فلسطین کی موجودہ صورتحال اور عرب حکومتوں کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کا علم ہونا چاہیے۔