سچ خبریں:عراق میں امریکی افواج اور آزاد عراقی ملیشیا کے مابین ہونے والے حملوں کے نتیجے میں متعدد امریکی اور اسرائیلی اعلی فوجی عہدے دار ہلاک ہوئے۔
عراقی الحشد الشعبی فورسز (پی ایم ایف) نے گذشتہ ہفتے امریکی اہداف کے خلاف سلسلہ وار حملوں کا آغاز کیا ،27 جون کے حملے کے دوران تین میزائل اربیل میں واقع امریکی اڈے میں واقع امریکی ہیڈ کوارٹر پر مارےگئےجس کے بعد سینئر امریکی فوجی عہدیدار جیمز ہرڈل نے کہا کہ اس حملے میں دو اعلی عہدے دار فوجی عہدہ داروں سمیت چار اہلکار زخمی ہوئےجن میں امریکی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل جیمز سی ولس اور اسرائیلی فوج کے کرنل شارون آسمان بھی شامل تھے۔
زخمیوں کو فوری طور پر قطر میں واقع امریکی فوجی اڈے العدید ائیر بیس اسپتال میں منتقل کیا گیا ،
تاہم اگلے دن ان میں سے صرف ایک زندہ بچا باقی تین دیگر افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھےجس کے بعد مبینہ طور پر ہلاک ہونےوالے عہدہ داروں کی لاشوں کو ان کے ممالک کے دارالحکومت بھیج دیا گیااور یکم جولائی کو لیفٹیننٹ کرنل جیمس سی ولس کی آخری رسومات نیو میکسیکو میں واقع ان کے آبائی شہر البوبورک میں ادا کی گئیں، ایورلوڈڈ کے مطابق امریکی اعلی عہدے دار کو سانتافہ نیشنل قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا جو امریکی فوجیوں کے لئے وقف ہے۔
تاہم ان کے جنازے کا عمومی اعلان کرتے وقت ان کی موت کی قدرتی(غیر فوجی) وجوہات پیش کی گئیں، اسی دن اسرائیلی فوج کے کرنل شیرون آسمان کو ان کے آبائی شہر یونا کے کفار قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
واضح رہے کہ مشرق وسطی میں امریکی فوجی اعلی عہدیداروں کی ہلاکتیں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے،2014 میں جنرل ہیرولڈ گرین کی موت افغانستان میں اخبار وں کی سرخی بنی جہاں ایک افغانی فوجی نے انھیں فوجی تربیتی مرکز کا دورہ کرنے کے دوران ہلاک کر دیا،یادرہے کہ حالیہ دہائیوں میں اس طرح کے واقعات کثرت سے پیش آتے رہے ہیں، تاہم ، تازہ ترین کیس متعدد طریقوں سے اہم ہے اور انھیں وجوہات کی بناء پر اس کو خفیہ رکھا گیاہے اور اسے میڈیا تقریبا کوئی رد عمل نہیں ملا ہے
شدید ردعمل
اربیل میں امریکی اڈے پر ہونے والاڈرون حملہ تین دن قبل امریکی افواج کے ایک حملے کے جواب میں تھا اگرچہ پی ایم ایف نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ عراق شام کی سرحد پر امریکی فوجی کاروائی کے جواب میں پی ایم ایف نے یہ حملہ کیاجس کے نتیجہ میں دو اعلی فوجی عہدیداروں کی ہلاکت ہوئی جس سے مشرق وسطی میں امریکی فوج کی موجودگی کو شدید دھچکا لگا،امریکی میڈیا نے اس نقصان پر کوئی توجہ نہیں دی۔
تاہم خطے میں امریکی فوجی موجودگی سےاس ملک کے عوام کے درمیان پائے جانے والے عدم اطمینان کے پیش نظر اس واقعے سے امریکہ اور اسرائیل میں سخت ردعمل اور عوامی عدم اطمینان پیدا ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ امریکی حکومت کی میڈیا مہموں نے لیفٹیننٹ کرنل جیمز سی ولس کی موت کے سلسلے میں ان کی ذاتی صحت کے معاملات پر بھی توجہ دی، غیر مصدقہ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن نے ذاتی طور پر پی ایم ایف کی معلومات اور ایک سینئر امریکی کرنل کی موت کی درجہ بندی کی درخواست کی ۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی حکومت نےاپنے ملک کی کانگریس کے ممبروں کو بھی عراق اور شام میں امریکی کاروائیوں کے نتائج سے لاعلم رکھاجو ان حملوں کی خبروں کی انٹیلی جنس درجہ بندی کی سطح مشرق وسطی میں امریکی قومی سلامتی اور پالیسی کے معاملے کی حساسیت کی عکاسی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ عراقی عسکریت پسندوں کے ساتھ امریکی تصادم ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکہ کو اس علاقے سےاپنے فوجی دستے واپس لینے کے لئے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
خود امریکہ کے اندر مشرق وسطی میں دو دہائیوں کی جنگ میں اربوں ڈالر کی لاگت نے لوگوں کو تھکادیا ہے، اس کے علاوہ اس خطہ میں امریکی افواج کے خلاف ہونے والے حملوں میں اضافے کے نتیجہ میں امریکی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے عدم اطمینان بڑھ گیا ہے، دوسری جانب مقبوضہ ممالک کی عوام بھی عراق اور شام میں امریکی موجودگی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، ان کی پارلیمنٹ میں ایسے قوانین پاس کیے گئے ہیں جن میں اپنے ممالک سےفوری طور پر غیر ملکی فوجی انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے جو امریکی فوجیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ عراق اور شام کے میں بائیڈن کی مجوزہ پالیسی نے پچھلے چھ ماہ کے دوران اس ملک کی فوجی صورتحال کو مزید خراب کردیا ہےنیز الحشد الشعبی کے حملوں میں اعلی عہدے کے کرنل کی موت سے مزید تناؤ پیدا ہوسکتا ہے۔