سچ خبریں:اقوام متحدہ کو عراقی انتخابات کی نگرانی کا واحد کردار ہونا چاہیے تھا، تاہم اس نے اس کردار سے آگے بڑھ کر تمام انتخابی عمل میں مداخلت کی۔
عراقی پارلیمانی انتخابات اور نتائج کے اعلان کے تقریباً دو ہفتے بعد بھی اس ملک کے مختلف حصوں میں عوامی مظاہرے جاری ہیں، مظاہرین کا خیال ہے کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرکے انتخابات کے نتائج پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔
اس سلسلے میں عراقی پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے خلاف مظاہروں کو منظم کرنے والی کمیٹی نے ایک بیان جاری کیا جس میں عراقی اعلیٰ انتخابی کمیشن کے لیے ایک آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے،عراقی پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے خلاف مظاہروں کو منظم کرنے والی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہاکہ ہم ہائی الیکٹورل کمیشن کو چوری شدہ بیلٹ واپس کرنے کے لیے صرف 72 گھنٹے کا وقت دیتے ہیں۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین UNHCRنے ملک کے مختلف صوبوں میں عراقی شہریوں کی جانب سے ووٹوں کی دستی دوبارہ گنتی کو قبول نہیں کیا ہے،تاہم اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے پارلیمانی انتخابات کے دوران سات خلاف ورزیوں کی تصدیق کی۔
اس سلسلے میں عراق کے اعلیٰ انتخابی کمیشن کی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ کرکوک کے چند پولنگ اسٹیشنوں کے علاوہ مختلف صوبوں کے کسی بھی پولنگ سٹیشن میں دوبارہ گنتی نہیں ہو گی، عوام کی جانب سے ووٹوں کی دستی طور پر دوبارہ گنتی نہ کرنے پر عراقی ہائی الیکٹورل کمیشن (IHEC) کے اصرار نے انتخابی نتائج کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ خاص طور پر چند دن پہلے عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے عراقی عوام اور سیاست دانوں کومخاطب کرتے ہوئے ٹویٹ کیاکہ انتخاب محفوظ رہے،ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور اختلافات کو ایک طرف رکھنا چاہیے۔
قال ذکر ہے کہ عراق کے انتخابی عمل میں تنازعات کا سبب بننے والے اسباب اور عوامل میں سے ایک وہ کردار ہے جو اقوام متحدہ نے شروع سے اب تک اس عمل میں ادا کیا ہے، اگرچہ عراقی پارلیمانی انتخابات کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کے سفیروں کی عراق میں موجودگی عراقیوں کا قومی مطالبہ تھا اور عراقی حکام نے بھی اس کا مطالبہ کیا تھا، تاہم عملی طور پر اقوام متحدہ نے اپنی نگرانی کے فرائض اور ذمہ داریوں پر عمل نہ کرتے ہوئے مداخلت کا راستہ اختیار کیا۔