سچ خبریں:فوربس کے صحافی کینتھ ربوزا نے اپنی ایک رپورٹ میں ان عرب ممالک کے بارے میں لکھا ہے جو شاید امریکی اتحادیوں کے مدار سے باہر ہیں۔
اس اقتصادی اشاعت پر زور دیا گیا کہ سب کچھ سعودی عرب سے شروع ہوا جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ ریاض کے دوران ان کا ہلکا استقبال کیا گیا۔ پھر سعودیوں نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں چین کو ثالث کے طور پر چنا، اس کے بعد متحدہ عرب امارات ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی طرح کئی طریقوں سے امریکہ کی مثال کی پیروی کی لیکن اب سے متحدہ عرب امارات اپنے مجموعی مفادات کے لیے کوشاں رہے گا۔
فوربس نے مزید کہا کہ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کو امریکہ کے ساتھ تنازعہ کرنا ہے یا یہاں تک کہ جغرافیائی سیاسی معاملات پر اس کے مفادات امریکہ سے الگ ہیں تو ایسا ہی ہو۔
اس رپورٹ کے تسلسل میں بتایا گیا ہے کہ جو بائیڈن نے گزشتہ موسم گرما سے متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان کو واشنگٹن مدعو کیا ہے لیکن اب تک یہ دورہ اور ملاقات نہیں ہوئی مختلف ذرائع ابلاغ بھی اس معاملے کو متحدہ عرب امارات اور امریکی حکومت کے درمیان تعلقات میں تناؤ کا اشارہ سمجھتے ہیں۔
اس اقتصادی اشاعت نے لکھا کہ امریکی نائب وزیر خزانہ نے متحدہ عرب امارات سے شکایت کی ہے جسے انہوں نے پابندیوں کے کمزور نفاذ سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر واشنگٹن پابندیاں لگاتا ہے تو ابوظہبی اپنے تعلقات پر کسی بھی پابندی کو نظر انداز کرتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات تجارت اور معیشت کے لحاظ سے اور سیاسی اثر و رسوخ کے لحاظ سے امریکہ کے لیے ایک اہم شراکت دار ہے۔ یہ امریکی فوجی سازوسامان کا چوتھا بڑا درآمد کنندہ ہے۔