سچ خبریں:امریکہ ایک بار پھر سعودی عرب کو لوٹنے کی راہ پر گامزن ہے،کہا جارہا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مہتواکانکشی منصوبے کو جس میں 2030 تک 3.2 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے، غلط وقت پریا یوں کہا جائے کہ بدترین ممکنہ وقت پر، سب سے بڑے اضافی بحران میں منظوری دی گئی۔
کسی بھی سرمایہ کاری کے منافع کا اندازہ ان قرضوں پر سود سے لگایا جا سکتا ہے جو سرمایہ کار کسی خاص پروجیکٹ میں ادا کر سکتے ہیں،اگر آپ ایک ایسی فیکٹری بنانا چاہتے ہیں جو سرمایہ کاری شدہ سرمائے کا 10% واپس کرےتو آپ 9% کی شرح سود کے ساتھ قرض حاصل کر سکتے ہیں ۔
لیکن اگر آپ کے پاس 0% سود کی شرح ہےتو قرض آپ کو 1% تک تباہ کر دے گاپھر آپ کو دیوالیہ پن کے لئے فائل کرنا پڑے گا اور اگر آپ کے طرح کے بہت سے لوگ ہیں تو سرمایہ دارانہ معیشت کا بحران شروع ہوجائےگا۔
موجودہ صورتحال میں عالمی بحران پختگی کو پہنچ چکا ہے اور 1929 کے عظیم کساد بازاری سے کئی گنا آگے بڑھ چکا ہے کیونکہ فاضل پیداوار کا حجم دسیوں فیصد میں ماپا جاتا ہے،تاہم مغربی مرکزی بینک اب بھی کھربوں غیر محفوظ رقم چھاپتے ہیں اور اسے تقریباً 0% شرح سود پر قرض دیتے ہیں،سرمایہ کاروں کی اکثریت کا منافع اتنا کم ہے کہ وہ زیادہ سوداور کم منافع کی وجہ سے اپنی جیبیں خالی کر لیتے ہیں کیونکہ کوئی بھی زیادہ پیداوار نہیں چاہتااور ایسا بہت زیادہ ہے کیونکہ اس سے دیوالیہ ہونے والے کی زندگی میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے کہ وہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ قرض لیتا ہے جبکہ کل قرضہ بڑھ جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ہی وقت میں جس شرح پر قرض کا اہرام گرتا ہے اس کا انحصار شرح سود پر ہوتا ہےجبکہ15 فیصد کے ساتھ یہ دو سالوں میں ہوسکتا ہے لیکن اگر حکومت مصنوعی طور پر شرح سود کو کم کرتی ہے تو دیوالیہ ہونے میں دو دہائیاں لگ سکتی ہیں۔