سچ خبریں: غزہ کی پٹی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بات کرنا، خاص طور پر اس خطے میں عارضی جنگ بندی کے بعد، مغربی اور اسرائیلی میڈیا کی جانب سے خلا پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے، جب کہ غزہ کے مستقبل کا تعین کئی متغیرات پر غور کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے وقت صیہونی حکومت تذبذب کا شکار
فلسطینی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان کچھ قیدیوں کی رہائی کے لیے غزہ میں جنگ بندی کے ساتھ ہی، بہت سے لوگوں کو غزہ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں منظرنامے بنانے کا موقع ملا ہے، اگرچہ حالیہ 50 روزہ جنگ نے طاقت کے توازن کی ابتدائی تصویر پیش کی ہے اور عزالدین القسام بٹالینز کے ساتھ مصروف صیہونی حکومت کا بے لگام دیکھنے کو ملا ہے لیکن ابھی تک سیاسی مذاکرات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
طوفان الاقصیٰ کے بعد پہلا سیاسی منصوبہ جو نیتن یاہو کی حکومت نے پیش کیا وہ اس صدی کی ڈیل کا اپڈیٹڈ ورژن تھا جس کے مطابق اسرائیلی فوج پہلے غزہ میں داخل ہو کر حماس کے سیاسی ڈھانچے کو تباہ کرے گی اور پھر فلسطینیوں پر حملہ کرے گی، انہیں وہاں سے نکال کر صحرائے سینا میں بھیجا جائے گا اور تعاون کونسل کے ممالک کے پیسوں سے پہلے خیموں میں اور پھر بستیوں میں بسایا جائے،یہ منصوبہ پہلے میدان جنگ میں نافذ نہیں ہوا کیونکہ اسرائیلی فوج اس منصوبے کے لیے زمین فراہم کرنے میں ناکام رہی،اگرچہ وہ غزہ شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن حماس کے سیاسی ڈھانچے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
دوسری جانب عوامی سطح پر فلسطینیوں کی نقل مکانی کا منصوبہ ناکام ہوا اور جنگ بندی کے پہلے دن ہی ایک تاریخی تصویر بن گئی اور شمالی غزہ کے لوگ صیہونی حکومت کی دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے تباہ شدہ گھروں کو واپس لوٹ گئے،اس کے علاوہ، بین الاقوامی سطح پر، عرب ممالک نے امریکہ کے دباؤ اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے اپنے علاقائی دورے کے دوران فالو اپس کے باوجود اس منصوبے کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔
اس کاروائی کے اندرونی ماحول پر اثرات کی وجہ سے مالی وعدوں کے باوجود مصر نے ابھی تک غزہ کے لوگوں کی نقل مکانی کے منصوبے کو قبول نہیں کیا اور دیگر عرب ممالک جیسے سعودی عرب، اردن اور عراق نے بھی اس طرح کے منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔ .
متوازی طور پر امریکی ایک اور منصوبے پر عمل پیرا تھے جو صدی کے معاہدے سے شروع ہونے والے اسرائیلی منصوبے کے برعکس، دو ریاستی منصوبے کے مطابق ہے، جو بنیادی طور پر ڈیموکریٹس میں زیادہ مقبول ہے،پہلے تو امریکیوں نے تجویز پیش کی کہ عرب افواج کا ایک اتحاد غزہ کا کنٹرول سنبھال لے، اس تجویز کی دوحہ میں حماس کے سیاسی دفتر نے مخالفت کی اور اسی لیے عرب ممالک نے اس کی حمایت نہیں کی۔
امریکیوں کا دوسرا منصوبہ اس پٹی کنٹرول خود مختار تنظیموں کے حوالے کرنا تھا جسے نہ صرف نیتن یاہو نے مسترد نہیں کیا بلکہ اگر اسرائیلی رضامند بھی ہو جاتے تب بھی اسے ناکام منصوبہ سمجھا جاتا اس لیے خود مختار تنظیم جس نے غزہ کے خلاف حملوں کے عروج پر بھی مغربی کنارے میں صیہونی حکومت کے ساتھ سکیورٹی تعاون روکنے سے انکار کیا فلسطینی رائے عامہ میں شدید نفرت انگیز ہے،یہ تنظیم جو 2006 کے فلسطینی انتخابات میں حماس سے ہار گئی اور غزہ سے دستبردار ہو گئی، صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون اور وابستگی کی وجہ سے اب اس کی اس علاقے کی سرحدوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ خود مختار تنظیم مغربی کنارے کے حالات کو کنٹرول کرنے میں بھی قابل نہیں ہے کہ جسے سیکشن C اور B میں اسرائیلی حکومت کی ہمہ جہت انٹیلی جنس، سکیورٹی اور فوجی مدد حاصل ہے۔ صہیونی حلقوں کا امریکہ سے سوال یہ ہے کہ یہ تنظیم اپنی عمر رسیدہ قیادت اور جانشینی کے لیے بھرپور مقابلے کے ساتھ غزہ کی پٹی کی صورت حال کو کیسے سنبھال سکے گی جو کہ پھٹنے کے لیے تیار ہے۔
علاقائی اور بین الاقوامی جماعتوں کی طرف سے غزہ کے لیے دیگر منصوبے تجویز کیے گئے ہیں، جن کی بنیاد پر حماس کی پوزیشن غزہ میں غالب طاقت سے کم ہو جائے گی یا یہ کہ وہ انتظامی امور میں حصہ نہیں لے گی لیکن ابھی تک حماس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سرکاری یا معتبر ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ صورت حال مستقبل کے سیاسی فیصلے کے لیے میدانی پلیٹ فارمز کے فقدان کی علامت ہے اور یہاں سوال غزہ کی صورت حال کا ہے جو دشمنی کے خاتمے کے اگلے ہی دن اس کے بعض حصوں پر وحشیانہ حملوں کی وجہ سے ناقابل رہائش ہو گیا ہے،انسانی اور سماجی مسائل کی کتنی بڑی تعداد کا سامنا کرنا پڑے گا؟
اس دوران فرانس اور سعودی عرب جیسے ممالک بین الاقوامی کانفرنس کے ذریعے سیاسی اقدامات کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کانفرنسیں اور سیاسی شوز بھی مردہ جنین ہیں کیونکہ یہ فلسطینیوں کی مزاحمت پر غور کیے بغیر کوئی حقیقی قدم نہیں اٹھا سکتے،اس لیے اس وقت تک مذاکرات کی میز پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا جب تک میدان کا معاملہ طے نہیں ہو جاتا۔
غزہ کے محاذ کی صورت حال کا تعین اس وقت ہوگا جب اطوفان لاقصیٰ آپریشن کے قیدیوں کی تلاش، حماس کی سرنگوں کو تباہ کرنے، راکٹ حملوں کو روکنے، عزالدین قسام کے کمانڈروں کو قتل کرنے اور مجاہدین کی گرفتاری کے حوالے سے صہیونیوں کے مہتواکانکشی اہداف کا کام انجام دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: غزہ کی گیس پر صیہونی حکومت کی نظریں
اس وقت غزہ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں زیادہ واضح طور پر بات کرنا ممکن ہوگا لیکن موجودہ حالات میں مغربی میڈیا نے غزہ پر اسرائیلیوں یا دیگر فریقوں کے کنٹرول پر مبنی سطحی منصوبوں کے بارے میں جو پروپیگنڈہ کیا ہے وہ زیادہ ایک ماحول ہے ۔