سچ خبریں: امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں شامل گیارہ ممالک کے درمیان دو ہفتوں پر مشتمل مشترکہ فوجی مشق آج جمعہ کو آسٹریلوی پانیوں میں منعقد ہو گی اور اطلاعات کے مطابق چینی فوجی جہاز اس مشق کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔
ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی وزیر دفاع رچرڈ مارلس نے اعلان کیا کہ امریکہ، آسٹریلیا اور 10 دیگر ممالک کے درمیان دو ہفتے کی مشترکہ مشقیں اس جمعہ کو آسٹریلیا کے پانیوں میں شروع ہوں گی۔
ڈیلی میل کی ویب سائٹ نے اس مشق کی تفصیلات سے متعلق آسٹریلوی وزیر دفاع سے بات کرتے ہوئے لکھا کہ چین کے جاسوس جہاز آسٹریلیا کے ساحل کے قریب موجود ہیں اور اس مشق کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا فاشزم
یاد رہے کہ یہ مشق ابتدائی طور پر امریکی اور آسٹریلوی افواج کی موجودگی کے ساتھ منعقد کی گئیں پھر جاپان اور جنوبی کوریا کی موجودگی کے ساتھ اس میں توسیع کی گئی اور اب اس میں 12 ممالک حصہ لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مشترکہ مشق آسٹریلیا میں منعقد کی جائے گی جس میں 12 ممالک کے 30 ہزار فوجی شرکت کریں گے۔
آسٹریلیا کے وزیر دفاع کے مطابق اس مشق میں کینیڈا، فجی، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، جاپان، نیوزی لینڈ، پاپوا نیو گنی، جمہوریہ کوریا، ٹونگا اور انگلینڈ کی فوجی دستے حصہ لیں گے جبکہ بھارت، فلپائن، سنگاپور اور تھائی لینڈ کی افواج بھی بطور مبصر اس میں شریک ہیں۔
یاد رہے کہ جرمن حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ مشترکہ مشق میں حصہ لینے کے لیے پہلی بار آسٹریلیا میں فوجی دستے بھیجے گی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان، برلن کی توجہ ہند-بحرالکاہل کے خطے پر بڑھ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: چین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ
واضح رے کہ حالیہ برسوں میں جرمنی نے ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں زیادہ فوجی موجودگی حاصل کی ہے، چاہے اس کا مطلب سلامتی اور اقتصادی مفادات کو حاصل کرنا ہی کیوں نہ ہو۔
جرمن فوج کے کمانڈر الفونس میس نے روئٹرز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ علاقہ ہمارے لیے جرمنی اور یورپی یونین کے لیے بھی اقتصادی باہمی انحصار کے باعث بہت اہم ہے۔
روئٹرز کے مطابق چین برلن کا سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے جبکہ اور یورپ کی 40 فیصد غیر ملکی تجارت بحیرہ جنوبی چین سے گزرتی ہے،یہ ایسی آبی گزرگاہ ہے جو ہند اور بحرالکاہل کے سمندروں میں علاقائی تنازعات کا مرکزی نقطہ ہے۔