سچ خبریں:فارن پالیسی میگزین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پابندیوں کے نظام کی تباہی پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے۔
امریکی جریدے فارن پالیسی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کے غیر موثر ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے تحقیقی مضامین شائع کیے ہیں جس میں کئی عوامل کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں چین اور روس کی پابندیوں کی مخالفت شامل ہے۔
فارن پالیسی میگزین لکھاہے کہ اقوام متحدہ کے پابندیوں کے نظام کو ان چیلنجوں کا سامنا ہے جنہوں نے اس کے موثر ہونے میں رکاوٹ ڈالی ہے، رپورٹ کے مطابق چین اور روس کی جانب سےپابندیوں کی مخالفت نیز جنوبی سوڈان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کی جانب سے پابندیوں کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے والے ماہرین کو دھمکانے اور ہراساں کرنے کی کوششوں کے ان کے تباہ ہونے میں اہم کردار ہے ۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی بار 1966 میں ایک ملک کو معاشی پابندیوں کا نشانہ بنایا،اس وقت سلامتی کونسل نے تجارت اور فوجی پابندیوں کا ایک سلسلہ لگایا جس کا مقصد اس وقت کے روڈیشیا کےوزیر اعظم ایان سمتھ کو ہٹانا تھا، اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ ولسن جو پابندیوں کے بڑے حامی تھے ، نے پیش گوئی کی تھی کہ اسمتھ کی حکومت چند ہفتوں میں گر جائے گی،تاہم چند ہفتوں میں نہیں بلکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے ایسا بعد ہوا۔
یادرہے کہ اس وقتپابندیوں کا روڈیشیا کی معیشت پر بہت کم اثر پڑا کیونکہ جنوبی افریقہ کی نسلی حکومت جو اب بھی پرتگالی نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت ہے ، نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود اسمتھ حکومت کے ساتھ تجارت جاری رکھی جس کے نتیجہ میں اسمتھ 1979 تک جب ولی عہد ولز نے باضابطہ طور پر زمبابوے کی آزادی کا اعلان کیا، اقتدار میں رہے ۔
ان معاملات سے قطع نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کچھ ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے پابندیوں کی کشش بڑھ گئی ہے ،اس ادارے نے عراق اور شمالی کوریا سمیت مختلف گروہوں اور ممالک کے اہداف پر 30 بار پابندیاں عائد کی ہیں۔
واضح رہے کہ آج سلامتی کونسل میں پابندیوں کے 14 نظام موجود ہیں، ان پابندیوں میں سے ہر ایک پر عمل درآمد کرانا ایک کمیٹی کی ذمہ داری ہے جو سلامتی کونسل کے تمام 15 ارکان کے نمائندوں اور ماہرین کے ایک پینل پر مشتمل ہے ، تاہم اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا ہے۔