سچ خبریں:اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان، چین، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور روس کے وزرائے خارجہ اور اعلی حکام کی شرکت کے ساتھ سربراہی اجلاس بدھ 26 نومبر کو تہران میں منعقد ہوا، یہ اقدام افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور افغانستان میں بحران میں اضافے کے بعد سامنے آیا اور اس کا پہلا اجلاس 16 ستمبر2021 کو دوشنبے میں ہونے والی شنگھائی سربراہی کانفرنس کے دوران افغانستان کے پڑوسی ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات کے ساتھ ہوا جس نے اس ملک میں پیش آنے والی صورتحال پر توجہ دینے میں افغانستان کے پڑوسیوں کے کردار کو مضبوط کیا۔
افغانستان پرامریکی قبضے کے خاتمے کے بعد موجود خطرات اور مواقع کے پیش نظر، یہ اجلاس اس بات پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے منعقد کیے گئے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ کس طرح بات چیت کی جائے اور افغانستان کے حالات کو سنبھالنے میں مدد مل سکے، خاص طور پر افغان عوام کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے کس طرح ان کی مدد کی جائے نیز متعدد عوامل کو منظم کیا جائے کیونکہ فکر ایک اہم کردار ادا کرتی ہےکہ ان ملاقاتوں میں کامیاب تعاون کے لیے دیگر فریقوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے والے اور یک طرفہ رویوں سے گریز کرنا ایک اہم ترین ضرورت ہے۔
اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو افغانستان کی سلامتی، امن اور ترقی پر اس کے اثرات کے علاوہ، یہ خطے کے ممالک کی امیج اور اس کے پڑوسیوں سے متعلق اقدامات میں نمایاں اضافہ کرے گا، اس ادارے میں سنجیدگی سے شرکت اور تقاریر میں درستگی اور پیروی اور عمل درآمد کی صلاحیت کے ساتھ بیانات جاری کرنے سے یہ اجلاس افغانستان کے معاملات کو منظم کرنے کے لیے امید کا مرکز بنیں گےجن میں جامع حکومت، دہشت گردی، انتہا پسندی، جارحیت، قبضے، جارحیت، قتل و غارت، امن و سلامتی جیسی اصطلاحات کا احتیاط سے استعمال، جنہیں مغربیوں نے گزشتہ بیس سالوں میں ضبط کر رکھا ہے اور اب اندرون و بیرون ملک ان کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں،اسی کے ساتھ ساتھ افغانستان کے سلسلہ میں مختلف تاثرات اور بیانیے ہیں جو اس اجلاس کے معیار اور شریک ممالک کی کامیاب سفارت کاری کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اجلاس میں کیے جانے والے جتنے زیادہ فیصلے طالبان کی طرف سے مان لیے جاتے ہیں،اتنا ہی جلد افغان مسئلے کے حل اور افغان عوام کے مسائل کے خاتمے کے لیے ایسے علاقائی اقدام پر انحصار کرنا ممکن ہو گا،تاہم پاکستان جو ان مذاکرات کا علمبردار ہے اور طالبان کے حامی کے طور پر جانا جاتا ہے، کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے، ایک ایسا کردار جو افغانستان کے مستقبل کے لیے زیادہ امید اور افغان عوام اور معیشت کے حالات زندگی کو معمول پر لانے میں پڑوسیوں کی زیادہ شراکت کا باعث بن سکتا ہے،اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران، افغانستان کے دوست ملک کی حیثیت سے اور اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے، اس نے ہمیشہ یہ دکھایا ہے کہ اس نے افغانستان کی آزادی اور ترقی کی راہ میں تعمیری اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے،ایران کی 13ویں حکومت کی پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی پالیسی ایران کے پڑوسی ہونے کے ناطے افغانستان کے رجحان کے ساتھ زیادہ ہم آہنگی کی تصدیق کرتی ہے۔ افغانستان کے پڑوسیوں کو ایک جامع حکومت کا ماڈل بنا کر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو روکنے میں مدد کرنی چاہیے جو افغانستان میں استحکام، سلامتی اور امن کو فروغ دیتا ہے، یہ ماڈل افغانستان کے پڑوسیوں کی کسی بھی کوشش کی کامیابی کے لیے ضروری شرط ہے، اس مقصد کے لیے حکومت قائم کرنے کے لیے طاقت اور یکطرفہ طور پر استعمال سے گریز کرنا اور نسلوں اور مذاہب کے ساتھ امتیازی سلوک سے پرہیز کرنا افغانستان کی راہ کو دیرپا امن اور ترقی کی طرف بدلنے کا ایک اہم عنصر معلوم ہوتا ہے۔
یادرہے کہ پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران افغانستان کے عدم استحکام کی جڑوں ، جیسے کہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت، دہشت گرد گروہوں کے اڈوں کا قیام، غربت اور نقل مکانی نیز آبادی کی نقل مکانی کی لہر، منشیات کی کاشت، پیداوار اور اسمگلنگ، منظم جرائم اور انتہا پسندی سے نمٹنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے جس کا تعلق پڑوسی ممالک کی سلامتی سے بھی ہے۔
افغانستان کے ہمسایہ ممالک سرحدی سلامتی، تجارتی سلامتی، اپنے مشنز اور شہریوں کی حفاظت اور قومی سلامتی سے متعلق دیگر امور کے حوالے سے باہمی توقعات رکھتے ہیں، جن کا تعین افغانستان کے سیاسی مستقبل کی روشنی میں کیا جاتا ہے، ان وجوہات کی بناء پر یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی پہل افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے اہم مفادات سے پیدا ہوئی اور افغانستان کے مسائل کو حل کرنے اور افغانستان پر امریکی قبضے کے خاتمے کے بعد منتقلی کے مرحلے میں علاقائی اخراجات کو کم کرنے میں نمایاں مدد کر سکتی ہے، امن و سلامتی کی سمت میں جس طرح افغانستان کے اندرونی گروہوں سے توقعات وابستہ ہیں اسی طرح ہمسایہ ممالک سے بھی توقعات وابستہ ہیں جبکہ تہران سربراہی اجلاس کو اس سمت میں رہنمائی کرنی چاہیے اور اس اہم علاقائی اقدام کے اگلے اقدامات اس طریقے سے کیے جائیں جس سے افغانستان ، خطے اور دنیا سب کو فائدہ ہو۔