سچ خبریں: الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی ماہرین نے غزہ جنگ میں حماس کی فتح اور صیہونی حکومت کی شکست نیز طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجوہات کا تجزیہ کیا۔
الجزیرہ نیوز چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں طوفان الاقصیٰ جنگ کے نتائج اور حماس کی فتح نیز صیہونی حکومت کی شکست کی وجوہات کا امریکی ماہرین کے نقطہ نظر سے تجزیہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 7 اکتوبر کی جنگ نے نیتن یاہو، گینٹز اور گیلنٹ کے گھٹنے ٹیک دیئے
امریکہ میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بارے میں بہت سی گفتگوئیں اس نتیجے پر ختم ہوتی ہیں کہ آخر کار اسرائیل ہی جیتے گا ،اسرائیل کے جنگی طیاروں، میزائلوں، بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور توپ خانے نیز ہتھیاروں کی تنصیبات کی تعداد کے لحاظ سے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس پر اسرائیل کی زبردست مادی اور فوجی برتری کو لے کر ماہرین ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں اور
یہ ماہرین اسرائیل کی فتح کے علاوہ کسی نتیجے کا تصور نہیں کرتے اور ان کی رائے میں صرف یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فتح کو حاصل کرنے کی مدت اور قیمت کتنی ہے۔
لیکن دوسری طرف ماہرین کی ایک بڑی تعداد تحریک حماس کی فتح یا اسرائیل کی شکست کے امکان کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کچھ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ دراصل حماس کی جیت ہوئی ہے۔
طوفان الاقصی آپریشن – جس کا آغاز 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے خلاف اچانک حملے سے ہوا – جس میں 1200 صیہونی مارے گئے اور 240 سے زیادہ کو حماس کے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔
اس مسئلے نے صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ان حکومت حالت جنگ میں ہے اور اسرائیلی فوج اس کا بدلہ لے گی۔
عملی میدان میں حماس جیت گئی
اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے خلاف غیر معمولی حملے کیے، جن کے نتیجے میں 20 ہزار سے زائد افراد شہید اور 33 ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں نیز غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، جس میں پانی کی فراہمی ،بجلی کے سب اسٹیشن، اسکول اور ہسپتالوں کی تباہی بھی شامل ہے۔
امریکی فوجی انٹیلی جنس کے سابق افسر اسکاٹ ریٹر نے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ حماس تحریک اپنے روایتی مادی چہرے کے لحاظ سے ایک تنظیم ہونے سے آگے بڑھ چکی ہے۔
ریٹر نے کہا کہ حماس مزاحمت کے معنی کے لیے ایک وسیع تر تصور بن گیا ہے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حماس نے وہی کیا جو اس سے پہلے صرف مصری فوج ہی کر سکتی تھی اور میدان جنگ میں اسرائیل کو شکست دی،حماس 7 اکتوبر کو عملی طور پر جیت گئی ۔
انہوں نے واضح کیا کہ جب 6 اکتوبر 1973 کو مصری افواج نے نہر سویز کو عبور کیا تو مصر جیت گیا اور اس کے بعد اسرائیل نے سخت جوابی حملے کیے لیکن اس سے قاہرہ کی فتح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہی موقف آج حماس کے ساتھ بھی ہوا ہے،اگر اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے کی بھی کوشش کرے گا تب بھی7 اکتوبر کو حماس جیت چکی ہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر آوراہام شاما کا خیال ہے کہ غزہ کے موجودہ واقعات سے قطع نظر اسرائیل عملی طور پر ناکام رہا ہے اور حماس جیت گئی ہے۔
اس مسئلے کو ثابت کرنے کے لیے شاما نے مقبوضہ علاقوں کے شمال اور جنوب سے ہزاروں صہیونیوں کے فرار اور وسطی علاقوں میں نسبتاً محفوظ پناہ گاہوں اور مراکز میں ان کی منتقلی، بہت سے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے بند ہونے اور اقتصادی صورتحال کی خرابی کا حوالہ دیا۔
صہیونیوں کا گہرا اور طویل المدتی نقصان
شاما نے کہا کہ اسرائیلیوں کو ایک اور نقصان ہوا اور یہ نقصان کا گہرا اور طویل مدتی احساس ہے،اس چوٹ نے ان کے حوصلے کو نشانہ بنایا اور ان کے احساس کو متاثر کیا،آپ اسے ان کے تبصروں، سوشل میڈیا پوسٹس، الفاظ کے انتخاب اور چہروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے حملے سے قبل صیہونیوں کے پاس خود اعتمادی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اکتوبر 1973 کی جنگ جیسی حیرت انگیز جنگ کا ہونا ممکن نہیں ہے اور اگر ایسا کوئی مسئلہ پیش آیا تو صیہونی فوج اسے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دے گی لیکن تقریباً 50 سال بعد حماس کا حملہ ہوا جس سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا۔
اس یونیورسٹی کے پروفیسر نے تاکید کی کہ اگرچہ 13000 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے لیکن تحریک حماس ایسی سرزمین پر حملہ کرنے میں کامیاب رہی جہاں کے رہنے والوں کی تعداد 9 ملین سے زیادہ ہے اور اس کے پاس ایک مضبوط فوج ہے،یہ مسئلہ اسرائیلیوں کے حوصلوں کو پست کرنے کا باعث بنا اور ایک آزاد ریاست کے قیام کی فلسطینی جدوجہد کو دنیا کے ایجنڈے میں سرفہرست لے آیا۔
دوسری جانب ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیون والٹ نے کہا کہ جیسا کہ توقع کی جاتی ہے، ہر فریق دوسرے پر الزام لگاتا ہے،اسرائیل اور اس کے حامی حماس کو ایک وحشی، ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں جس نے جان بوجھ کر عام شہریوں پر حملہ کیا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ دوسری طرف فلسطینی اور ان کے حامی تسلیم کرتے ہیں کہ عام شہریوں پر حملہ کرنا غلط ہے لیکن وہ اسرائیل پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں پر نسلی امتیاز کا نظام مسلط کر رہا ہے اور انہیں کئی دہائیوں سے منصوبہ بند اور نامناسب تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے،اگر حماس کے طریقے غلط بھی ہوں تب بھی بین الاقوامی قانون مظلوم قوموں کو غیر قانونی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
والٹ نے کہا کہ جنگ کے تازہ ترین دور کی نئی خصوصیت یہ ہے کہ حماس نے تقریباً مکمل سرپرائز کیا، جیسا کہ 50 سال پہلے مصر اور شام نے اکتوبر 1973 کی جنگ کے دوران کیا تھا اور جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ توقعات سے بڑھ کر کیا، اس حملے نے اسرائیل کو ماضی کی ہر جنگ سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ واضح ہے کہ اس حملے نے اسرائیلی معاشرے کو صدمہ پہنچایا،موجودہ جنگ طاقت کی سرحدیں واضح کر سکتی ہے، جنگ دوسرے ذرائع سے سیاست کا تسلسل ہے،طاقتور ممالک کبھی کبھی میدان جنگ میں جیت جاتے ہیں لیکن سیاسی میدان میں پھر بھی ہار جاتے ہیں، امریکہ نے ویتنام اور افغانستان میں تمام بڑی جنگیں جیتیں لیکن آخر کار وہ دونوں جنگیں ہار گیا۔
والٹ کے نقطہ نظر سے حماس کا 7 اکتوبر کا حملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسرائیل مضبوط نہیں ہے اور فلسطینیوں کی اپنے فیصلہ خود کرنے کی خواہش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ ظاہر کرتی ہے کہ ابراہیمی معاہدے اور اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی حالیہ کوششیں امن کی ضمانت نہیں دیتیں،درحقیقت شاید وہ اس جنگ کے امکان کو کسی بھی چیز سے کمزور سمجھتے تھے۔
دہائیوں کی جدوجہد؛ فلسطینیوں کی یکجہتی اور صیہونی حکومت کی تنہائی کا سبب
واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشرق وسطیٰ یونٹ کے سربراہ جین الٹرمین نے صہیونی فوج کی امریکہ کی غلطیوں سے دوری کا دور ختم ہونے کو سمجھا۔
اس مرکز کے ذریعے شائع ہونے والی رپورٹ میں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے ویتنام جنگ کے آغاز سے ہی امریکی فوج کی تاریخ سے بڑی حد تک خود کو دور کر لیا تھا، امریکی فوج نے واضح فتوحات کے بغیر لبنان، صومالیہ اور ہیٹی میں تنازعات کو ختم کر دیا۔
الٹرمین نے کہا کہ عراق، افغانستان اور شام و عراق کی سرحدوں میں گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد کی جنگیں، وافر وسائل، برسوں کی جنگ، اربوں ڈالر کے اخراجات اور ہزاروں امریکیوں کی ہلاکت کے باوجود فتح حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔
الٹرمین نے واضح کیا کہ حماس کا فوجی فتح کا تصور طویل مدتی سیاسی نتائج کا ادراک ہے، حماس کو ایک سال یا چند مختصر سالوں میں فتح نظر نہیں آتی بلکہ دہائیوں کی جدوجہد میں فتح نظر آتی ہے جو فلسطینیوں کی یکجہتی اور اسرائیل کی تنہائی میں اضافہ کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس منظر نامے میں حماس غزہ کے محصور اور ناراض باشندوں کو اکٹھا کرتی ہے اور خود مختار تنظیموں کے خاتمے میں مدد کرتی ہے،یہ امداد اس بات کو یقینی بنا کر حاصل کی جاتی ہے کہ فلسطینی ان تنظیموں کو اسرائیلی فوج کے لیے ایک کمزور معاون کے طور پر دیکھتے ہیں۔
الٹرمین نے مزید کہا کہ حماس نے عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے پیچھے دھکیل دیا جبکہ ترقی پذیر ممالک فلسطین کے مسئلے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، یورپ نے اسرائیلی فوج کی طرف سے قوانین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند کرنا بند کر دیں، امریکہ میں اسرائیل کے بارے میں چہ میگوئیاں بڑھ رہی ہے،ایک ایسا مسئلہ جو ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی حمایت کو متاثر کرتا ہے جو اسرائیل کو 1970 کی دہائی کے آغاز سے امریکہ میں حاصل ہے۔
انھوں نے کہا کہ تل ابیب کو شکست دینے کے لیے کافی طاقت پر بھروسہ کرنے کے بجائے حماس اسے شکست دینے کے لیے اسرائیل کی بہت زیادہ طاقت استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اسرائیل کی طاقت اسے شہریوں کو قتل کرنے، فلسطینی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے اور تحمل کے بین الاقوامی مطالبات کی نفی کرنے کی اجازت دیتی ہے،یہ تمام مسائل حماس کے جنگی اہداف کو تقویت دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا صیہونی حماس کو ختم کر سکتے ہیں؟
واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشرق وسطیٰ یونٹ کے سربراہ نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر کو حماس کو حاصل ہونے والی غیر متوقع فتح فلسطینیوں کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرے گی،فلسطینی جو ناممکن مشکلات کے باوجود چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں۔