سچ خبریں:تجزیہ کار رونین برگمین روزنامہ یدیعوت احرونوت میں لکھتے ہیں کہ ابھی تک کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ قیدیوں کو رہا کرنا اور حماس کو تباہ کرنا ناممکن ہے،لیکن یہ حقیقت ہے۔
اس سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ درحقیقت، یہاں تک کہ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ہے، تو امکان ہے کہ فوج کو غزہ سے اپنے فوجی مقاصد کی تکمیل سے پہلے ہی نکال دیا جائے گا۔ پچھلے دو ہفتوں میں، جب بھی مجھے کسی سے یا کسی چیز سے بات کرنے کی ضرورت پڑی، مجھے متلی اور نفرت محسوس ہوئی۔ مسئلہ ان لوگوں کا نہیں ہے۔ یہ میری اپنی غلطی تھی کہ میں حکومت اور سیکورٹی اداروں کے پیغامات کی عکاسی کرتا ہوں، جب کہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، وہ بہت غلط ہے اور یہ اس صدی کی سچائی کی سب سے بڑی پردہ پوشی ہے۔
ان جملوں کا بولنے والا وہ شخص ہے جو اعلیٰ حکومتی عہدہ رکھتا ہے اور اپنے عہدے کی وجہ سے اسے عوامی تبصرے کرنا پڑتے ہیں اور غیر ملکی حکام سے ملاقاتیں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ وہ میدان جنگ کے واقعات کو اچھی طرح جانتا ہے اور انٹیلی جنس کے معاملات میں ماہر ہے۔ یہ متلی ان احکامات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو حکومت اور فوج کی پروپیگنڈہ لائن کی تفصیل ہے جس کے مطابق اس آپریشن کے دو مقاصد ہیں: بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور طاقت اور حماس کا تسلط اور حماس کی رہائی۔ یرغمالیوں کے بارے میں حماس کے حملے کے دو ہفتے بعد سے وزراء، ترجمان، وزیراعظم اور پوری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ یہ کہہ رہی ہے کہ یحییٰ سینور پر تبادلے کے لیے دباؤ کا بنیادی ذریعہ زمینی حملہ ہے لہٰذا حملہ جاری رہنا چاہیے، لیکن یہ بیانات 33 روزہ جنگ میں اسی طرح کی غلط فہمیوں کی طرح لاپرواہ ہیں۔
غزہ کی پٹی میں داخل ہونے سے صرف چند روز قبل ہم نے خبردار کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں گویا اس جنگ کے لیے دو مقاصد کا تعین کیا جا سکتا ہے، اور ہم نے لکھا تھا کہ بے وقوف نہ بنو اسرائیل کو صرف دو انتخاب کا سامنا ہے۔ یا تو قیدیوں کی رہائی کے لیے ممکنہ حد تک بڑے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کریں یا زمینی حملہ شروع کریں۔ اس چوراہے پر، کوئی دائیں طرف جا سکتا ہے، وہ راستہ جو کہتا ہے کہ انتقام اور انتقام کا دن آ گیا ہے۔ یا آپ بائیں مڑ سکتے ہیں جو کہ اسیروں کی آزادی ہے۔
جس کے پاس تھوڑی سی عقل ہے وہ جانتا ہے کہ یہ دونوں راستے دو سمتوں میں مختلف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا اسرائیل کو ایک سال بھی غزہ میں نہیں رہنے دے گی۔ بین الاقوامی دباؤ، جس کے ساتھ مل کر کیچڑ میں دھنسی ہوئی فوج کے مرنے والے فوجیوں کی بھاری قیمت اور حماس کی افواج کی آگ سے اسرائیلی فوج کو بہت جلد پیچھے ہٹنا پڑے گا۔