🗓️
سچ خبریں: جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم کو سپریم کورٹ میں عارضی بنیادوں پر ججوں کی تقرری کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایک سال کے لیے دونوں ریٹائرڈ ججز کی تقرری کی منظوری دی گئی۔ یہ تعیناتی ایسے وقت میں ہوئی جب سپریم کورٹ کے ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں عارضی بنیادوں پر ججوں کی تعیناتی کیوں کی جا رہی ہے؟
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایڈہاک ججز کی تعیناتی کو آئینی اقدام قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے چار ریٹائرڈ ججز کے نام تجویز کیے تھے، مگر جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
صحافی شہزاد ملک کے مطابق، 19 جولائی کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل کو ایڈہاک جج تعینات کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اجلاس میں کسی نام پر اعتراض سامنے نہیں آیا، لیکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اصولی طور پر ایڈہاک ججز کی تقرری نہیں ہونی چاہیے۔
اجلاس میں آٹھ ممبران کا اتفاق تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم اور جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے معذرت کی، اس لیے ان کی تعیناتی کی بات ختم ہو گئی۔ آٹھ ممبران نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کے نام پر اتفاق کیا اور کہا کہ ان کی تعیناتی ایک سال کے لیے ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم، جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس ریٹائرڈ طارق مسعود کے نام تجویز کیے تھے۔
آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت، چیف جسٹس کمیشن سے مشاورت اور صدر مملکت کی منظوری کے بعد ججز سے ایڈہاک ذمہ داریوں کی باضابطہ درخواست کریں گے۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر کی معذرت
سپریم کورٹ کے سابق جج اور سندھ کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے بطور ایڈہاک جج سپریم کورٹ میں خدمات انجام دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ انہوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیشہ ورانہ اور ذاتی وجوہات کے باعث وہ یہ ذمہ داری قبول نہیں کر سکتے۔
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، جو نگران وزیر اعلیٰ سندھ بھی رہ چکے ہیں، نے بتایا کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو انہوں نے زیر التوا کیسز کو ختم کرنے کے لیے ایڈہاک ججز کی تقرری کی حمایت کی تھی، لیکن یہ تقرری اسی صورت میں ممکن تھی جب سپریم کورٹ میں 17 ججز کی تعداد مکمل ہوتی۔ حال ہی میں، سپریم کورٹ میں 17 ججز کی تعداد پوری ہونے کے بعد، ریٹائرڈ ججز سے رابطہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے پہلے، سپریم کورٹ کے ایک اور ریٹائرڈ جج جسٹس مشیر عالم نے بھی ایڈہاک جج بننے سے معذرت کر لی تھی۔ انہوں نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا کہ "اللہ نے مجھے میری حیثیت سے زیادہ عزت دی، لیکن ایڈہاک ججز نامزدگی کے بعد سوشل میڈیا پر جو مہم شروع ہوئی، اس سے میں بہت مایوس ہوا۔ موجودہ حالات میں بطور ایڈہاک جج کام کرنے سے معذرت چاہتا ہوں۔”
ایڈہاک جج کیا ہوتا ہے اور اس کی تقرری کیسے کی جاتی ہے؟
آئین کے آرٹیکل 181 اور 182 کے مطابق، جب سپریم کورٹ میں جج کی نشست خالی ہو یا کوئی جج اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے میسر نہ ہو، تو ہائی کورٹ کے ایسے جج کو جو سپریم کورٹ میں تعیناتی کی اہلیت رکھتے ہوں، صدر مملکت عارضی طور پر سپریم کورٹ میں تعینات کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر عارف چوہدری کے مطابق، جب ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز کسی اہم مقدمے کی سماعت کے باعث دیگر مقدمات کو سننے سے قاصر ہوں یا اہم مقدمات زیر التوا ہوں، تو اس صورت میں ایڈہاک جج کی خدمات لی جاتی ہیں۔ ان کے اختیارات ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہی ہوتے ہیں۔
آرٹیکل 181 کے تحت، ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو بھی عارضی طور پر سپریم کورٹ میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ عارضی جج تب تک تعینات رہتے ہیں جب تک صدر مملکت اپنا حکم واپس نہ لے لیں۔
ایڈہاک ججز کی تعیناتی اور اس کا تنازع
سابق جج شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ ایڈہاک ججز کی تعیناتی پاکستان کی عدالتی تاریخ کا حصہ رہی ہے، مگر موجودہ سیاسی درجہ حرارت کی وجہ سے یہ معاملہ تنازع کا باعث بن گیا ہے۔ تاہم، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ میں کسی جج کی تعیناتی ایڈہاک بنیادوں پر ہوئی ہو۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، 1955 سے 2016 تک مجموعی طور پر 22 ججز کو بطور ایڈہاک جج تعینات کیا گیا ہے۔
سابق اٹارنی جنرل انور منصور کے مطابق، ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا مقصد سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 58 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، سپریم کورٹ میں ایڈہاک بنیاد پر وہ ججز تعینات کیے جا سکتے ہیں جنہیں ریٹائر ہوئے تین سال سے کم عرصہ ہوا ہو۔
واضح رہے کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے 17 مستقل ججز کا ہونا ضروری ہے۔
سابق اٹارنی جنرل انور منصور کے مطابق، اس وقت سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز لانے کا مقصد زیر التوا مقدمات نمٹانا ہے، لیکن ان ججز کی تعیناتی کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایڈہاک ججز کی تقرری کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے معاملے میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا، جس سے تنازع بڑھا اور بعض سابق ججز نے دوبارہ عدلیہ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی۔
انور منصور نے کہا کہ حکومت کی نظرثانی کی درخواست پر جلد سماعت نہیں ہو سکے گی اور جب ہوگی، تو وہی 13 ججز بینچ میں ہوں گے جنہوں نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ ان کے مطابق ایڈہاک ججز نہ صرف دیگر زیر التوا مقدمات سن سکیں گے بلکہ اگر حکومت تحریک انصاف پر پابندی کا ریفرنس بھیجتی ہے تو اس کا بھی فیصلہ ان کے ہاتھ میں آ سکتا ہے۔
سابق جج شائق عثمانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے حکومت نے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا اور اس پر اتحادیوں سے بھی بات چیت ہونی باقی ہے، اس لیے یہ خدشہ درست نہیں کہ ایڈہاک ججز کو اسی مقصد کے لیے تعینات کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کا اعتراض مگر وزیرِ قانون کی حمایت
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری پر اعتراض کرتے ہوئے اس اقدام کو متنازع قرار دیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت نے اس میں بدنیتی کا الزام لگایا ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ 2015 سے سپریم کورٹ میں کسی ایڈہاک جج کی تقرری نہیں کی گئی تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ اس اقدام سے کیسز کا بوجھ کم نہیں ہوگا اور یہ تقرری مخصوص نشستوں کے مقدمے کے فیصلے سے منسلک ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق، سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری سے عدالت اور ججوں کی غیر جانبداری پر سمجھوتہ ہوگا۔ پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں جائیں گے۔
جمعہ کو پی ٹی آئی کے رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر ان تقرریوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ایڈہاک ججز کی تقرری سے یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ سب ایک جماعت کے لیے کیا جا رہا ہے اور اس سے عدلیہ میں ایک جماعت کے خلاف آرا کو بیلنس کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
شبلی فراز نے خط میں کہا کہ مستقل ججز کی تقرری کے بعد زیر التوا مقدمات کو جواز بنا کر ایڈہاک ججز کی تقرری نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ایڈہاک ججز کی تقرری کی تجویز اسی دن آئی جب سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ایڈہاک ججز کی سلیکشن کے لیے کوئی شفاف طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ الجہاد ٹرسٹ کیس کے بعد کسی ایڈہاک جج کی تین سال کے لیے تقرری نہیں ہوئی اور حال ہی میں سپریم کورٹ میں مستقل ججز کی تقرری ہوئی ہے۔
سینیٹر شبلی فراز نے اپنے خط میں دعویٰ کیا کہ جوڈیشل کمیشن کی مشاورت کے بغیر ہی ججز کی سلیکشن کی گئی اور شفاف طریقہ کار کے بغیر ججز کی تقرری مزید پریشان کن ہے۔
انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ میں سویلین کے ملٹری ٹرائل، آٹھ فروری الیکشن کیس اور تحریک انصاف پر پابندی کے معاملات زیر التوا ہیں، ایسی صورت حال میں ریٹائرڈ ججز کی تقرری سے سنجیدہ اور جائز خدشات جنم لے رہے ہیں۔
شبلی فراز نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کی قلیل مدت ملازمت میں زیر التوا کیسز میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آ سکے گی، اور زیر التوا کیسز کا معاملہ آنے والے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں عوام، پاکستان بار کونسل اور متعدد بار کونسلز کی ترجمانی کر رہا ہوں اور ایڈہاک ججز کی تقرری میں کوئی شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہییں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام آزاد اور بغیر مداخلت کے عدلیہ کے سٹیک ہولڈرز ہیں اور ایڈہاک ججز کی تقرری عوام کو عدلیہ میں مداخلت کا تاثر دے رہی ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی حمایت
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ایڈہاک ججز کی تعیناتی ہونی چاہیے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آئین کے تحت ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی اجازت ہے اور یہ فیصلہ چیف جسٹس نہیں بلکہ جوڈیشل کمیشن نے کرنا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے نجی ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایڈہاک ججز کی تقرری کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، نہ کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔
ایڈہاک ججز پر عارف چوہدری کی رائے
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر اور ماہر قانون عارف چوہدری نے کہا کہ ایڈہاک ججوں پر ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے جو انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ عدلیہ میں گروپنگ ہے، اور ایڈہاک ججز کی تعیناتی سے مزید اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے‘، 6 ججوں کے خط کا معاملہ، سپریم کورٹ میں سماعت
عارف چوہدری نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے علاوہ ہائی کورٹس میں بھی کئی کیسز زیر التوا ہیں۔ مثال کے طور پر، لاہور ہائی کورٹ میں 50 آسامیاں ہیں لیکن صرف 36 ججز کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ میں دس ججوں کی جگہ اس وقت آٹھ ججز کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ اقدام ہائی کورٹس کے لیے کیوں نہیں سوچا گیا؟
عارف چوہدری نے کہا کہ دو نئے ججز کی تقرری اور بینچز میں شمولیت سے صورتحال پر فرق پڑ سکتا ہے، اور ماضی میں بھی بہت سے کیسز میں ایسا دیکھا گیا ہے۔
مشہور خبریں۔
ملکہ انگلینڈ کی آخری رسومات پر 6 ارب پاؤنڈ خرچ
🗓️ 9 ستمبر 2022سچ خبریں: الجزیرہ کے نمائندے نے ٹویٹ کیا کہ الزبتھ دوم کی
ستمبر
سردار ایاز صادق کو وزیر قانون و انصاف کا اضافی قلمدان سونپ دیا گیا
🗓️ 31 اکتوبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے سردار ایاز صادق
اکتوبر
انٹرپول کے اماراتی سربراہ کے خلاف تشدد کے الزام میں شکایت
🗓️ 19 جنوری 2022سچ خبریں:ایک وکیل نے متحدہ عرب امارات کےانٹرپول کے نئے سربراہ کے
جنوری
ایران کی قیادت میں نئے مشرق وسطیٰ کا ظہور!:ٹائمز آف اسرائیل
🗓️ 10 اپریل 2023سچ خبریں:صیہونی میڈیا نے اعتراف کیا ہے کہ بیجنگ کی حوصلہ افزائی
اپریل
امریکا میں آن لائن سرچنگ میں گوگل کی غیرقانونی اجارہ داری کے خاتمے پر کام شروع
🗓️ 10 اکتوبر 2024سچ خبریں: امریکا نے آن لائن سرچنگ میں گوگل کی غیرقانونی اجارہ
اکتوبر
شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی
🗓️ 23 نومبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے
نومبر
فیاض الحسن نے اپوزیشن کی جانب سے کیمرے نصب کرنےکے الزام کو اپوزیشن کا نیا ہتھکنڈاقرار دیا
🗓️ 12 مارچ 2021لاہور(سچ خبریں) وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے سینیٹ
مارچ
گروپ 20ممالک مقبوضہ کشمیر میں اجلاس کا بائیکاٹ کریں، سرینگر میں پوسٹر چسپاں
🗓️ 6 مئی 2023سری نگر: (سچ خبریں) بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و
مئی