سچ خبریں: خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی تحصیل نیو دربند کے رہائشی شاہنواز بدر نے اس عید پر قربانی کا جانور خریدنے سے پہلے ایک ڈیپ فریزر خریدا تاکہ شدید گرم موسم میں گوشت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ شاہنواز نے بی بی سی کو بتایا کہ قربانی کے گوشت کو ڈیپ فریزر تک پہنچانے کے باوجود انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق، "طویل لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج والی بجلی کی وجہ سے گوشت کو محفوظ نہیں بنایا جا سکا۔”
شاہنواز وہ واحد شخص نہیں ہیں جو اس طویل لوڈشیڈنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، اور اس شدت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اچانک اضافے نے عوام کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ یہ اضافہ سب سے زیادہ خیبر پختونخوا میں دیکھنے میں آیا ہے، جہاں اس وقت پاکستان تحریک انصاف برسرِ اقتدار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پختونخوا میں لوڈشیڈنگ کے مسئلے کا حل؛صوبے کے گورنر کی زبانی
عید کی چھٹیوں میں بھی خیبر پختونخوا کے عوام مختلف علاقوں میں سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئے۔ عوامی نمائندوں کی بات کریں تو کبھی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور خود گرڈ اسٹیشن کے اندر بٹن آن آف کرنے پہنچ جاتے ہیں اور وفاق کو سخت پیغام دیتے ہیں، اور کبھی صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی بجلی بحال کروانے کے لیے سڑکوں پر نظر آتے ہیں اور بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا موقف جاننے سے قبل پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آیا خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں لوڈشیڈنگ زیادہ ہے یا پورے صوبے میں صورتحال ایک جیسی ہے اور اگر کچھ علاقوں میں زیادہ ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا یہ ایک نئی بات ہے یا ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے یعنی کہیں یہ سیاسی بنیادوں پر تو نہیں ہو رہا ہے؟
خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کو کم نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہاں کے مکین باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ نسبتاً کم ہوتی ہے، مگر ایسے علاقے جہاں زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہاں بجلی چوری اور لائن لاسز جیسے مسائل ہوتے ہیں، تو ایسے میں صوبے میں بجلی کی فراہمی کی ذمہ دار کمپنی لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ کر دیتی ہے، اور یوں ان علاقوں کے لوگ بھی سخت گرم موسم میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
صوبے کے دیہی علاقوں جیسے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، بنوں، قبائلی علاقے، بڈا بیر، متنی، کوہاٹ، ہنگو اور کرک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہے۔ پیسکو کے ایک اہلکار کے مطابق، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت قبائلی علاقوں اور صوبے کے جنوبی اضلاع میں امن عامہ کا مسئلہ بھی ہے، اور ان علاقوں میں واپڈا اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام شام کے بعد وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔
ترجمان پیسکو کے مطابق، شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چار سے چھ گھنٹے ہے جبکہ مضافاتی علاقوں میں 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ بجلی چوری اور واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث لاسز زیادہ ہیں اور ایسے فیڈرز پر زیادہ لوڈ مینجمنٹ کرنا ناگزیر ہے۔
پیسکو حکام کے مطابق، صوبے میں پیسکو کے 1300 سے زیادہ فیڈرز ہیں، جن میں سے 156 فیڈرز پر صرف دو گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ 135 فیڈرز پر 20 سے 30 فیصد لاسز ہیں، جہاں چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ 96 فیڈرز ایسے ہیں، جن پر لاسز 30 سے 40 فیصد ہیں اور وہاں سات گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ 143 فیڈرز پر 40 سے 60 فیصد تک لاسز ہیں اور وہاں 12 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ 157 فیڈرز پر لاسز 60 سے 80 فیصد ہیں اور وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے ہے۔ 159 فیڈرز پر لاسز 80 فیصد سے زیادہ ہیں جس بنا پر 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں ایسے بھی فیڈرز ہیں جہاں پیسکو نے زیرو لوڈشیڈنگ کا دعویٰ کیا ہے۔ ان جگہوں میں ہسپتال اور چند تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ پیسکو کے ریکارڈ کے مطابق، 1315 فیڈرز میں سے 548 فیڈرز ایسے ہیں جہاں لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی۔
نیپرا کی تازہ ترین رپورٹ سال 2022-23 کے مطابق، خیبر پختونخوا نقصانات کے حوالے سے باقی تمام صوبوں سے آگے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس صوبے میں بجلی چوری بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہاں نادہندگان بھی زیادہ ہیں۔ پیسکو کو سالانہ 77 ارب کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ حکومت کی پالیسی واضح ہے کہ جہاں بجلی کی چوری ہوگی وہاں لوڈشیڈنگ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صرف خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں بجلی چوری ہو رہی ہے اور جن علاقوں میں نقصانات زیادہ ہیں وہاں لوڈشیڈنگ بھی زیادہ کی جاتی ہے۔
نیپرا کے قانون کے مطابق، بجلی کی تقسیم اور ترسیل والی کمپنیوں کو نقصانات کے بدلے لوڈشیڈنگ کے کوئی قانونی اختیارات حاصل نہیں۔ اگر یہ کمپنیاں ایسا کرتی ہیں تو نیپرا باقاعدہ ان پر جرمانے عائد کرتا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین نے عید کی چھٹیوں کے دوران لوڈشیڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے صوبے کے تمام اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایت دی کہ بجلی کی تقسیم والی کمپنیوں سے رابطے میں رہیں اور یقینی بنائیں کہ صوبے میں کہیں بغیر شیڈول کے لوڈشیڈنگ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ 22 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کم کرکے 18 گھنٹے کرنے کے وعدے پر عمل نہیں ہوا۔
وفاقی وزیر اویس لغاری نے خیبر پختونخوا میں گرڈ سٹیشن پر حملہ آور ہونے والے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے وزیر داخلہ کو خط بھی لکھا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ واپڈا اہلکاروں کے کہنے پر صوبے کے کسی شہری کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوگی۔
عید کے چھٹیوں میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور ڈیرہ اسماعیل خان کے گرڈ سٹیشن پہنچ گئے تھے اور لوڈشیڈنگ کا نیا شیڈول جاری کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں: کیا حکومت عید پر لوڈشیڈنگ ختم کر سکی؟
صحافی منظور علی کے مطابق، خیبر پختونخوا میں ہمیشہ یہ سوچ رہی ہے کہ ہم سے بجلی سستی خریدی جاتی ہے اور مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے اور نہ ہمیں گذشتہ عرصے کے واجبات ادا کیے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔
ان کے مطابق، صوبائی حکومت کا یہ وعدہ بھی وفا نہیں ہو سکا ہے کہ وہ دیہی علاقوں میں جا کر لوگوں کو رضامند کریں گے کہ وہ میٹرز لگوائیں اور اپنے بقایا جات قسطوں میں ادا کریں۔