سچ خبریں: پاکستان کے حالیہ بجٹ پر نہ صرف اپوزیشن رہنماؤں نے سخت تنقید کی بلکہ کاروباری طبقے اور تنخواہ دار افراد نے بھی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی کی صورت حال ہے، اور اضافی ٹیکس کے بوجھ سے ان کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی،حکومت کا منصوبہ ہے کہ مجموعی ٹیکس ریونیو میں تقریباً 40 فیصد کا اضافہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے، پچھلے سال کے مقابلے میں براہ راست محصولات میں 48 فیصد اور بلاواسطہ محصولات میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئے مالی سال کیلئے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 12 ہزار 400 ارب روپے رکھنے کی تجویز
ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ شعبے اضافی ٹیکس سے مستثنیٰ رہے ہیں جیسے ریٹیلرز، زرعی آمدن اور ریئل اسٹیٹ۔ اس سے عام آدمی اور مینوفیکچررز پر بوجھ بڑھ جائے گا۔
پاکستان اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک بڑے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے مالیاتی نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے مختلف شرائط اور تجاویز پیش کی ہیں تاکہ زیادہ ریونیو جمع کر کے ملک کے بجٹ خسارے کو کم کیا جا سکے۔
حکومتی وزراء نے اس بجٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرض پروگرام کے حصول کے لیے اضافی ٹیکس عائد کرنا آئی ایم ایف کی شرائط اور تجاویز سے ہم آہنگ ہے اور ان پر کافی دباؤ ہے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف نے حکومت کو یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے اخراجات بڑھائیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے زراعت پر ٹیکس لگانے، ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے اور پراپرٹی ٹیکس نافذ کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن حکومت نے ان سفارشات پر عمل نہیں کیا۔
ہم نے آئی ایم ایف کی سفارشات کا جائزہ لیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا یہ بجٹ واقعی آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق بنایا گیا ہے یا نہیں۔
آئی ایم ایف نے پاکستان میں ٹیکس زیادہ جمع کرنے کے لیے کون سی سفارشات دی ہیں؟
آئی ایم ایف کی رپورٹس میں پاکستان کی معیشت پر اکثر ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور وسیع کرنے سے متعلق تجاویز شامل ہوتی ہیں۔ حالیہ تکنیکی معاونت رپورٹ میں مختلف شعبوں میں ٹیکس بڑھانے اور انھیں ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے یا ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی ختم کرنے کی سفارشات دی گئی ہیں۔
آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو معقول بنایا جائے اور برآمدی شعبے کے علاوہ تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ پاکستان سے کہا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس کے کم ریٹ کو ختم کیا جائے، سوائے ضروری غذا، تعلیم اور صحت کے شعبوں کی اشیا پر کم یکساں ریٹ لگایا جائے۔
ادارے نے پاکستان کو پرسنل انکم ٹیکس کو زیادہ معقول بنانے کی سفارش کی ہے، جس میں سیلری اور نان سیلری افراد کے ٹیکس میں تضادات کو ختم کیا جائے اور دونوں کے لیے ٹیکس سلیب کو کم کر کے صرف چار ٹیکس سلیبز بنائے جائیں۔
مزید برآں، سفارشات میں درمیانے اور چھوٹے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا کہا گیا ہے، جس میں مینوفیکچرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز شامل ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان میں بجلی کے بل کے ذریعے نئے ٹیکس پیئر کو تلاش کیا جا سکتا ہے، لیکن اس طریقے سے کسی کی انکم کے بارے میں درست تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا، لہذا اسے ختم کرنا چاہیے۔
زرعی ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس کے حوالے سے، آئی ایم ایف نے صوبوں کو زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی تجویز دی ہے۔
اس کے علاوہ، آئی ایم ایف نے مختلف شعبوں میں ٹیکس اصلاحات کی سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ ان کے مطابق، پاکستان کا ٹیکس سسٹم ریونیو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے بھی ناکام ہے کہ یہ ٹیکس پیئرز کے ساتھ یکساں اور جائز سلوک نہیں کرتا۔
کیا بجٹ میں آئی ایم ایف کی سفارشات کی روشنی میں ٹیکس عائد کیے گئے ہیں؟
پاکستان کے جاری مالی سال کے بجٹ کو دیکھتے ہوئے، ایف بی آر کو اس سال تقریباً 13,000 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہے، جو پچھلے مالی سال میں 9,400 ارب روپے تھا۔
حکومت نے اس اضافی آمدنی کے لیے زیادہ ٹیکس عائد کیے ہیں، لیکن کیا یہ ٹیکس واقعی آئی ایم ایف کی تجاویز کے مطابق ہیں؟
ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق، بجٹ میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقوں کے لیے ٹیکس سلیب ابھی بھی چھ ہیں، جبکہ آئی ایم ایف نے چار سلیب کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی خواہش کے برعکس، سیلری اور نان سیلری افراد کے ٹیکس ریٹ کو یکساں کرنے کے لیے اس بجٹ میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
سیلز ٹیکس کے حوالے سے، برآمدی شعبے کے علاوہ تمام چھوٹ ختم کرنے کی سفارش کی گئی تھی، تاہم فنانس بل میں دیکھا جائے تو ابھی بھی کچھ شعبوں پر ٹیکس چھوٹ برقرار ہے، جن میں سب سے نمایاں مثال پیٹرول اور ڈیزل پر جی ایس ٹی کی چھوٹ ہے۔ پاکستان میں اس وقت پیٹرول اور ڈیزل پر کوئی جی ایس ٹی نہیں لیا جاتا، جبکہ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ برآمدی شعبے کے علاوہ تمام شعبوں پر یکساں جی ایس ٹی لگایا جائے۔
ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے کی کافی عرصے سے بات ہو رہی ہے اور آئی ایم ایف نے بھی اس شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی سفارش کی تھی۔ تاہم، حکومت نے اس بجٹ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے مینوفیکچررز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز میں سے صرف مینوفیکچررز پر ٹیکس لگایا ہے۔ ہول سیلرز اور ریٹیلرز کو نارمل ٹیکس رجیم میں لانے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
آئی ایم ایف نے زرعی ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس بڑھانے کی بھی سفارش کی تھی، تاہم اس بجٹ میں نہ وفاق اور نہ ہی صوبوں نے اپنے بجٹ میں زرعی ٹیکس بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات کیے ہیں۔
وفاقی بجٹ کو ’آئی ایم ایف کا بجٹ‘ کیوں کہا جا رہا ہے؟
اکثر اوقات اپوزیشن رہنما وفاقی حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو ’آئی ایم ایف کا بجٹ‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم، آئی ایم ایف کی سفارشات اور حکومتی اقدامات کا موازنہ کریں تو یہ دعویٰ مکمل طور پر درست نہیں لگتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف وسیع تر سفارشات پیش کرتا ہے اور ایک ایک چیز پر ٹیکس کے بارے میں ہدایات نہیں دیتا۔ ان کے مطابق، مخصوص شعبوں پر ٹیکس کے بارے میں دونوں اطراف کے درمیان اجلاس میں طے ہوتا ہے جو منٹس آف میٹنگ کا حصہ بنتا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی مہتاب حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی ایم ایف کی دی گئی سفارشات ایک میڈیم ٹرم فریم ورک ہوتی ہیں جس پر تین سال میں عملدرآمد ہونا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ پیش کرنے اور اس کی منظوری کے عمل کو دیکھیں تو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک وسیع تر اتفاق رائے نظر آتا ہے۔
مہتاب حیدر نے مزید کہا کہ بجٹ میں ریٹیلرز اور زرعی شعبے پر انکم ٹیکس نہیں لگایا گیا جو آئی ایم ایف کی سفارش تھی، لیکن کچھ دیگر سفارشات کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ بجٹ کتنا آئی ایم ایف کی سفارشات پر مبنی ہے، اس کا اصل فیصلہ آئی ایم ایف خود کرے گا۔ اگر وہ آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے لیے ایک بڑے قرض پروگرام کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ کر لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بجٹ اس کی شرائط کے تحت بنایا گیا ہے۔‘
ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان سے ٹیکس آمدنی بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ بجٹ خسارہ کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف طویل مدتی اصلاحات کی بات کرتا ہے، لیکن ’پاکستانی حکام ایک آسان راستہ اختیار کرتے ہیں۔ انہوں نے فوراً ٹیکس چھوٹ ختم کر کے اضافی آمدنی دکھا دی۔
ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق یہ بھی صحیح ہے کہ بہت سارے شعبوں پر ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی، تاہم آئی ایم ایف جو چاہتا ہے وہ ایک وسیع فریم ورک ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کا ہر چیز پر 18فیصد سیلز ٹیکس لگانے کا مطالبہ،حکومت مشکلات کا شکار
انہوں نے وضاحت کی کہ ’جب آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں تو یہ چیزیں طے کی جاتی ہیں اور پاکستانی حکام بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے اپنا طریقہ بتاتے ہیں، جس میں خاص کر پرائمری بجٹ کو سرپلس دکھانا شامل ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق، ’وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بجٹ آئی ایم ایف کی سفارشات سے ہم آہنگ ہے۔‘