سچ خبریں: طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ماہرین نے اس امکان کا اظہار کیا کہ ۱۷ سال بعد حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ایک اور جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔
میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اسرائیل کے جنوبی لبنان پر حملے کے امکانات پر بحث کے ساتھ، حزب اللہ کی زمینی حملے کے لئے تیاری اور اسرائیلی دشمن کو جوابی حملے کی صلاحیت پر قیاس آرائیاں تیز ہو گئی ہیں، ۳۳ روزہ جنگ کے دوران حزب اللہ نے ۱۵ ہزار میزائلوں کی موجودگی اور اپنے بہترین فوجیوں کی مدد سے اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کو روک کر دوبارہ پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حزب اللہ نے حیفا پر میزائل حملہ کرکے اسرائیل کو کیا پیغام دیا ہے؟
بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ آج میدان جنگ میں صورتحال مختلف ہے اور حزب اللہ کے پاس حملے اور دفاع کے مختلف ہتھیار اور شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تجربہ ہے۔
اسرائیلی قومی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ اران اتزیون نے نیوز ویک کو بتایا کہ 33 روزہ جنگ کے دوران حزب اللہ پر فتح کے امکانات کا اندازہ لگانا مشکل تھا، ممکنہ جنگ کا میدان دریائے لیاتی اور آبی سرحد کے درمیان ہو گا۔
حزب اللہ کی فوجی صلاحیتیں
حزب اللہ کے مطابق، اس کے فوجیوں کی تعداد تقریباً 100 ہزار ہے۔ کچھ مغربی ذرائع کے مطابق یہ تعداد 50 ہزار (30 ہزار فعال اور 20 ہزار ذخیرہ) ہے، یہ فوجی غیرمرکزی کمان کے اصول پر عمل کرتے ہیں اور شہری جنگ میں دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے خفیہ کاروائی کا استعمال کرتے ہیں۔
اسکائی نیوز کے مطابق اس گروپ کے پاس 100 ہزار میزائل ہیں، لیکن کچھ ذرائع یہ تعداد 150 سے 200 ہزار بتاتے ہیں، شہید سید محمد حسین زادہ حجازی نے حزب اللہ کے میزائلوں کی کیفیت اور ہدف زنی میں بہتری کے لئے اہم کردار ادا کیا۔
حزب اللہ کے میزائلوں میں رعد،فجر، زلزال اور فاتح شامل ہیں، جو بیک وقت فائر کر کے حیفا بندرگاہ میں امونیاک ذخیرہ جیسی اہم تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں، حزب اللہ کے دیگر اہم ہتھیاروں میں مرصاد، کرار اور ایوب ڈرون شامل ہیں، جو آئرن ڈوم کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں حزب اللہ کے الماس میزائلوں کے ذریعے آئرن ڈوم کو نشانہ بنائے جانے کی تصاویر سامنے آئیں، جو اس تنظیم کے جدید ترین ہتھیار ہیں، اسی طرح اینٹی ٹینک اور اینٹی شپ میزائل بھی صہیونیوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہیں جو 33 روزہ جنگ کی یادیں تازہ کر سکتے ہیں۔
شمالی محاذ، فیصلہ کن جنگ اور علاقائی نظم میں تبدیلی
7 اکتوبر کے بعد کی واقعات کی روشنی میں، ممکنہ اسرائیلی حملے کے بعد امریکی بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم میں دوبارہ تعینات ہو سکتے ہیں اور امریکی حملہ آور اور انٹیلی جنس نظام تل ابیب کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں، اس جنگ کی اہمیت کے پیش نظر، کوئی بھی فریق اپنے اتحادی کو پیچھے نہیں چھوڑنا چاہے گا اور میدان اپنے حریف کے حوالے نہیں کرے گا۔
اگر تل ابیب غزہ کے میدان میں کامیابی حاصل کر بھی لے تب بھی حزب اللہ کی دھمکی اسرائیل کے سر پر موجود رہے گی جس کی وجہ سے اسرائیل کی داخلی کمزوری اور سیکیورٹی خطرات کی ناکامی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار آہستہ آہستہ نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو عالمی زنجیروں میں پرکشش رہنے کے لئے ثابت کرنا ہو گا کہ طوفان الاقصی جیسے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے اسی لئے یہ ممکن ہے کہ اسرائیل شمالی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جنگ کو ترجیح دے اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔
خلاصہ
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں 1980 کے اوائل سے جاری ہیں، اتنظیم کی پیدائش کا فلسفہ، قابض فوجیوں کو نکالنا اور لبنانی زمین پر دوبارہ قبضے کو روکنا تھا، 2000 اور 2006 کی جنگوں نے اسرائیلی افواج کو پیچھے دھکیلنے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے ذریعے اس کامیابی کو مستحکم کرنے کا موقع فراہم کیا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی اسٹریٹجک برتری
طوفان الاقصی کے آپریشن کے بعد شمالی محاذ پر تناؤ بڑھ گیا ہے اور ماہرین کا ماننا ہے کہ 17 سال بعد ایک نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے، امریکی، فرانسیسی اور قطری سفارتی کوششوں کے باوجود کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اور اسرائیلی فوج کا جنوب لبنان کی طرف پیش قدمی کا امکان موجود ہے۔