سچ خبریں: سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں جاری طویل جنگوں، خصوصاً اسرائیل کی حمایت کے معاملے میں، اقتصادی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔
النهار اخبار کے مطابق امریکہ کی فوجی ٹیکنالوجی اسرائیل کی طرف سے لڑ رہی ہے اور امریکہ اس ریاست کی بڑے پیمانے پر حمایت کر رہا ہے۔
عربوں کے لیے صبر ایک فضیلت ہو سکتا ہے لیکن یہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا خاص طور پر جب بات امریکہ کی تل ابیب کے ساتھ حمایت کی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کے پاس افغانستان میں شکست کا تجربہ
یہ مسئلہ خود امریکی عوام کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ عام شہری اپنے ملک کے ایک اور طویل جنگ میں پھنسنے سے خوفزدہ ہیں۔
انہوں نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا تجربہ افغانستان کے پہاڑوں سے لے کر عراق کے میدانوں تک کیا ہے۔
جنگ کے مالی بوجھ نے امریکہ کے سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ کو ان جنگوں کو دلدل کہنے پر مجبور کیا۔
معاشی بحران
جنگ کی قیمت نامی براون یونیورسٹی کے پروجیکٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق امریکیوں کے بنیادی مفروضات ہر جنگ میں سوالیہ نشان بن چکے ہیں، امریکی فوجی مہمات خصوصاً افغانستان اور عراق کی جنگوں میں ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے اور امریکہ نے ان جنگوں پر تقریباً پانچ ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔
اب امریکی خوفزدہ ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ عالمی معاشی اور سیاسی بحرانوں کا سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکی معیشت پہلے ہی سنگین مشکلات کا شکار ہے۔
معاشی مسائل کا اہم کردار آئندہ صدارتی انتخابات کے نتائج میں ہوگا جو نومبر میں ہوں گے مزید برآں، امریکہ کو عالمی سطح پر اپنی حیثیت کے حوالے سے بھی نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
واشنگٹن میں آج کل ٹیکس بڑھانے کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ لوگ اس کے معیشت اور روزگار کی شرح پر منفی اثرات کے بارے میں فکرمند ہیں۔
رونالڈ ریگن کے الفاظ میں حکومت خود ایک مسئلہ ہے نہ کہ مسئلہ کا حل،اسی طرح امریکی اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اگر کوئی جنگ چھڑتی ہے، تو اسے جلد اور فیصلہ کن طور پر ختم کیا جائے، چاہے وہ مشرق وسطیٰ میں ہو یا کہیں اور۔
امریکی فوجی طاقت کا وسیع پیمانے پر اجتماع اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں کسی بھی علاقائی تنازعے کو تیزی سے ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے نقصانات کم اور دشمنوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکیں۔
یہی منطق اسرائیل کی موجودہ پالیسی میں بھی کارفرما ہے، تاہم، امریکی عوام کو طویل المدتی جنگی قربانیوں پر آمادہ کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
امریکی حماقتیں؛ طویل جنگوں کی طرف بڑھتا مشرق وسطیٰ
جو بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور پروفیسر اینڈرو جے باسیوچ نے فارین افیئرز میگزین میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن "طویل جنگوں” کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس میں پہلے امریکی شہریوں اور پھر باقی دنیا، خصوصاً مشرق وسطیٰ کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
باسیوچ وضاحت کرتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ زیادہ تر امریکیوں کے لیے فتح کی یادگار ہے؛ ان کا خیال ہے کہ جیسے واشنگٹن نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اور جاپان کو شکست دی اور سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کو قابو میں کیا، اسی طرح امریکی قیادت کی عالمی سطح پر مضبوطی کے لیے فوجی طاقت کا ہونا ضروری ہے۔
باسیوچ اس سوچ کو ایک ذہنی فریب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ امریکہ اور دنیا دونوں کے لیے ایک قسم کی برین واشنگ ہے، وہ ویتنام جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس جنگ نے ان توہمات کو چکنا چور کر دیا اور 11 ستمبر کے بعد امریکی ماجراجویوں کے تحت عالمی جنگ برائے دہشت گردی نے امریکہ کی فوجی برتری کو ایک کھلی دھوکہ دہی کے طور پر بے نقاب کر دیا۔
باسیوچ مزید کہتے ہیں کہ افغانستان اور عراق کی جنگوں کے مایوس کن نتائج امریکہ کے لیے ایک انتباہ ہونا چاہیے تھے جیسے 1956 میں مصر کے جمال عبدالناصر نے برطانیہ کو نہر سویز سے دستبرداری پر مجبور کیا اور برطانیہ کی فوجی مہم جوئی کو ناکام بنایا، جو برطانیہ کے لیے ایک بڑی ہزیمت کا باعث بنی تھی۔
بری خبر
یہ پیغام امریکی خارجہ پالیسی کے حلقوں کے لیے بری خبر ہے اور انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ جنگوں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حمایت میں ایک طویل جنگ میں ملوث ہونے سے گریز کریں، اس کے بجائے، مالی وسائل کو ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
اگر حالات قابو سے باہر ہو جائیں اور اسرائیل اور ایران ایک علاقائی جنگ میں ملوث ہو جائیں، جس میں دیگر ممالک بھی یا تو مجبوراً یا اپنی مرضی سے شامل ہو سکتے ہیں، تو یہ خطرہ ہے کہ امریکہ ایک بڑے بحران میں پھنس جائے گا۔
اسی دوران، بہت سے امریکی، سروے کے مطابق، صحت، تعلیم، تفریحی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وہ مشرق وسطیٰ یا دنیا کے دیگر حصوں میں طویل جنگوں کے خلاف ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیوں مشرق وسطیٰ کی جنگوں پر پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے جبکہ امریکہ میں کولوراڈو یا کیلیفورنیا کی سڑکیں اور اسکول مرمت نہیں کیے جا رہے؟
یہ بڑھتی ہوئی امریکی عوام کی ناراضگی یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں مالی اور عسکری امداد فراہم کرنے پر بھی نظر آتی ہے، خاص طور پر جب امریکہ کے بجٹ اور قرضوں کی حد کے مذاکرات میں عوامی خدمات کے لیے مختص فنڈز پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ غیر ملکی جنگوں میں مداخلت، حتیٰ کہ اسرائیل کے لیے بھی، امریکہ کے قومی مفادات کے مطابق نہیں ہے۔
پروفیسر اینڈرو جے باسیوچ کے مطابق، حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکہ شاید اپنے سوئز لمحے سے گزر رہا ہے، مگر امریکی ادارے عراق میں ناکامی اور افغانستان کی سب سے طویل جنگ کی تلخی کو فراموش کر چکے ہیں اور حقیقت کا انکار کر رہے ہیں۔ وہ اب بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا کو امریکی فوجی طاقت کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: بائیڈن کی شام میں سب سے بڑی شکست: نیوز ویک
اس وقت مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی سکون سے نہیں سو رہا۔ جو کچھ اس خطے میں ہو رہا ہے، عرب سرزمینوں پر ہونے والی جنگیں جو عربوں کے خون سے سینچی جا رہی ہیں، انسانیت کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اس خطے میں وقت کے ساتھ جمع ہونے والے تمام مسائل اچانک پھٹ پڑے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہر دور میں طاقت اور غلبہ ہی حقوق کا تعین کرنے والے عوامل بن چکے ہیں۔