سچ خبریں: فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں شہید ہو گئے ہیں۔
حماس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں انہیں نشانہ بنایا گیا۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے نشانہ بنایا ہے، جس پر اب تک اسرائیل نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
تہران میں ہونے والی یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت میں حملے کے چند گھنٹوں بعد ہوئی، جس میں تحریک حزب اللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے سیاسی سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ تھے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔
سخت بیانات کے باوجود، سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عموماً انہیں غزہ کے سخت گیر رہنماؤں محمد ضیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔
1989 میں اسرائیل نے انہیں تین سال کے لیے قید کیا اور پھر حماس کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ لبنان-اسرائیلی سرحد پر مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا، جہاں انہوں نے 1992 میں ایک سال جلاوطنی میں گزارا۔
اسماعیل ہنیہ قطر میں مقیم تھے اور طویل عرصے سے غزہ کی پٹی کا دورہ نہیں کر سکے تھے، 62 سالہ اسماعیل ہنیہ کو 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
پارلیمانی انتخابات میں حماس کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد، جب انہوں نے فلسطینی اتھارٹی میں حکومت کی صدارت سنبھالی، تو ان کا نام اور عرفی نام (ابو العبد) 2006 سے ہی دنیا بھر میں معروف ہوا۔
ہنیہ 1962 میں غزہ شہر کے مغرب میں شاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔،ان کے والدین کو 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے قصبے اشکلون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔
انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے اسلامی تحریک میں شامل ہو گئے،سماعیل ہنیہ نے 1987 میں گریجویشن کی، اسی سال غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی تھی۔
انہیں اسرائیلی حکام نے اس بغاوت کے فوراً بعد مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کر لیا تھا، لیکن اس وقت ان کی قید کی مدت مختصر تھی۔
قید اور جلاوطنی
1988 میں حماس کے غزہ میں ایک سرکردہ مزاحمتی گروہ کے طور پر ابھرنے کے بعد اسماعیل ہنیہ کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، لیکن اس بار انہیں چھ ماہ کی قید ہوئی۔
اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو دبانے میں ناکام رہا اور اگلے سال اسماعیل ہنیہ کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، جس کے بعد انہیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
1992 میں رہائی کے بعد، اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیز الرنتیسی اور محمود الزہر سمیت 400 سے زائد کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں جلاوطن کر دیا۔
ان جلاوطنوں نے مرج الظہور کیمپ میں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزارا، جہاں ان کے اسلامی گروپ کو بہت زیادہ میڈیا کوریج ملی اور وہ دنیا بھر میں مشہور ہو گئے۔
دسمبر 1993 میں اسماعیل ہنیہ غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔ 1997 میں اسرائیل نے احمد یاسین کو جیل سے رہا کیا، جس کے بعد ہنیہ کو ان کا معاون مقرر کیا گیا۔
احمد یاسین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ کو فلسطین میں حماس کی مزاحمتی تحریک میں زیادہ اہمیت ملی اور وہ فلسطینی اتھارٹی میں گروپ کے نمائندے بن گئے۔
ستمبر 2003 میں ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں معمولی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی طیارے کے قریب آنے کی آواز سن کر دونوں افراد بم گرنے سے چند سیکنڈ قبل عمارت سے نکل گئے تھے۔
لیکن محض چھ ماہ بعد، احمد یاسین فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر سے برسائی جانے والی گولیوں کی زد میں آ گئے اور شہید ہو گئے۔
فلسطینی حکومت کی قیادت
اگرچہ اس وقت محمود الزہر کو حماس کا سب سے سینئر رہنما سمجھا جاتا تھا، لیکن 15 جنوری کے انتخابات میں اسماعیل ہنیہ کو حماس کی مہم کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا، جس میں تحریک کے امیدواروں نے فلسطینی قانون ساز کونسل کی 132 نشستوں میں سے 76 نشستیں حاصل کیں۔
اس کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس سے نئی حکومت بنانے کو کہا۔ تاہم، حکمراں فتح تحریک اور دیگر دھڑوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے ہفتوں کی بات چیت ناکام ہو گئی، اور اسماعیل ہنیہ کو بنیادی طور پر اپنی ٹیم اور چند ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔
جب اسماعیل ہنیہ نے اپنی انتظامیہ کے پروگرام کا خاکہ پیش کیا، تو انہوں نے امریکہ اور یورپی یونین سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد میں کمی کی دھمکیوں پر عمل نہ کریں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینیوں کو آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا حق ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہماری حکومت خطے میں انصاف کے حصول، قبضے کو ختم کرنے اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔”
سنہ 2018 میں، امریکہ نے اسماعیل ہنیہ کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے "حماس کے عسکری ونگ سے قریبی تعلقات ہیں” اور وہ "شہریوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں۔”
طوفان الاقصی کے بارے میں اسماعیل ہنیہ کا موقف
گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کے فوراً بعد اسماعیل ہنیہ کی ایک ویڈیو میڈیا پر نشر ہوئی تھی جس میں وہ دوحہ میں اپنے دفتر میں تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ ویڈیو میں وہ ایک عرب چینل پر رپورٹ دیکھ رہے تھے۔ جب حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو قبضے میں لیا تو انہوں نے ’اس فتح پر خدا کا شکر ادا کیا تھا۔‘
اسماعیل ہنیہ کا خاندان
اسماعیل ہنیہ نے اپنی کزن امل ہنیہ سے اس وقت شادی کی جب وہ سولہ سال کی تھیں جس سے ان کے 13 بچے ہوئے جن میں آٹھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں شامل ہیں۔
ان کی بیٹی ثنا 1986 میں پیدا ہوئیں جبکہ بثینہ 1987 میں پیدا ہوئیں۔ 1992 میں پیدا ہونے والی بیٹی کا نام خولہ، 1998 میں پیدا ہونے والی بیٹی کا نام لطیفہ، اور 2004 میں پیدا ہونے والی بیٹی کا نام سارہ ہے۔
ان کے آٹھ بیٹے ہوئے؛ عبدالسلام 1981 میں پیدا ہوئے، حمام 1983 میں، وسام 1984 میں، معاذ 1985 میں، عاد اور حاضم 1994 میں پیدا ہوئے، عامر 1995 میں اور محمد 1996 میں پیدا ہوئے، حاضم، عامر اور محمد اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔
رواں سال اپریل کے دوسرے ہفتے میں قاہرہ میں غزہ کی جنگ بندی کے تازہ ترین مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے اور پوتے پوتیاں غزہ میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: کیا اسماعیل ہنیہ کو صیہونیوں نے شہید کیا ہے؟
اسماعیل کے تین بیٹے حاضم، عامر اور محمد اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ رمضان کے اختتام پر مغربی غزہ میں الشاتی نامی مہاجر کیمپ کی جانب ایک کار میں سفر کر رہے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کے پوتے پوتیوں میں تین بچیاں اور ایک بچہ شامل تھا، حماس کی جانب سے ان کے نام جاری کیے گئے ہیں جن میں مونا، امل، خالد اور رازان شامل ہیں۔