کیا اسرائیل غزہ پر قبضے کی جانب بڑھ رہا ہے؟ نتساریم سے موراگ تک کی صورتحال

کیا اسرائیل غزہ پر قبضے کی جانب بڑھ رہا ہے؟ نتساریم سے موراگ تک کی صورتحال

?️

سچ خبریں:غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی زیرِ قبضہ علاقوں میں باضابطہ طور پر شامل کرنے کے خدشات اس وقت مزید بڑھ گئے ہیں جب امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر واپسی ہو چکی ہے۔

رواں ماہ (اپریل) کے آغاز سے اسرائیلی فوج کی 36ویں بریگیڈ نے کوریڈور موراگ پر قبضے کی کارروائی کا آغاز کیا، جس کا مقصد رفح اور خان یونس کے درمیان رابطے کو منقطع کرنا ہے،عبرانی ذرائع کے مطابق، یہ فوجی کارروائی 12 اپریل کو مکمل کر لی گئی،رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی افواج کا منصوبہ ہے کہ شہر رفح کا مکمل محاصرہ کر کے اسے سیکورٹی زون یعنی ایک بےآب و گیاہ اور غیر آباد علاقہ بنا دیا جائے، جو کہ غزہ کے باسیوں کا دنیا سے واحد رابطہ ہے۔
اس سے قبل بھی اسرائیلی فوج نے فیلادلفیا کوریڈور پر قبضہ کر کے مزاحمتی گروہوں تک اسلحہ کی ترسیل روکنے کی کوشش کی تھی، اور ساتھ ہی نتساریم کوریڈور کی تعمیر کے ذریعے غزہ کے شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی بنیاد رکھی گئی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو، بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے، الٹرا آرتھوڈاکس رہنماؤں جیسے ایتامار بن گویر اور بتسلائیل اسموطریچ کے ساتھ مل کر پہلے غزہ اور پھر مغربی کنارے کے الحاق کی جانب بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
 کوریڈور موراگ کیا ہے؟
کوریڈور موراگ غزہ کی پٹی میں واقع ایک اسٹریٹیجک علاقہ ہے، جو خان یونس (مرکزی غزہ) اور رفح (جنوبی غزہ) کے درمیان ایک اہم زمینی رابطے کے طور پر کام کرتا ہے، یہ کوریڈور سابقہ صہیونی بستی موراگ کے قریب واقع ہے، جو 2005 میں غزہ سے انخلاء کے دوران خالی کی گئی تھی، اس علاقے کو جغرافیائی لحاظ سے غزہ کے جنوبی اور مرکزی حصوں کے درمیان آمد و رفت، تجارت اور مواصلاتی رابطے کے لیے کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
اس علاقے پر اسرائیلی افواج کا قبضہ 2 سے 12 اپریل کے درمیان مکمل ہوا، جس کے نتیجے میں خان یونس اور رفح کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے،یہ صورتحال فلسطینی عوام کی روزمرہ زندگی اور مزاحمتی گروہوں کی سرگرمیوں پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔
چونکہ یہ علاقہ سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے، اس لیے اسرائیلی افواج کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ اس پر کنٹرول حاصل کریں تاکہ فلسطینیوں کی نقل و حرکت محدود کی جا سکے اور غزہ پر اقتصادی و عسکری دباؤ بڑھایا جا سکے۔
فلسطینی عوام اور حماس کے لیے ممکنہ خطرات
کوریڈور موراگ پر قبضہ فلسطینی عوام کے لیے کئی خطرات لے کر آیا ہے۔ خان یونس اور رفح کے درمیان رابطے کے منقطع ہونے سے عام شہریوں کی بنیادی سہولیات جیسے اسپتال، اسکول، بازار اور خاندانی روابط بری طرح متاثر ہوں گے،اس کے نتیجے میں سماجی و معاشی مسائل پیدا ہوں گے، خصوصاً ان علاقوں میں رہنے والے خاندان جو ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔
مزید برآں، رفح کراسنگ سے رابطے کے منقطع ہونے سے انسانی امداد، خوراک، اور ادویات کی ترسیل میں شدید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، جبکہ غزہ پہلے ہی ایک سخت محاصرے کی زد میں ہے، یہ صورت حال جنوبی غزہ میں ایک نئے انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے اور وہاں کے باشندوں پر جسمانی اور نفسیاتی دباؤ میں اضافہ کرے گی۔
دوسری جانب، حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے لیے بھی یہ کوریڈور ایک کلیدی عسکری و لاجسٹک روٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے ذریعے مختلف حصوں میں جنگجوؤں اور سامان کی ترسیل کی جاتی ہے۔
اس کا منقطع ہونا حماس کی عسکری سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے اور ان کی آپریشنل ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق، یہ قبضہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنوبی غزہ، خاص طور پر رفح میں، ایک وسیع فوجی آپریشن کی تمہید بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ علاقہ مزاحمتی گروہوں کا اہم گڑھ مانا جاتا ہے۔
کیا غزہ کا غیرقانونی الحاق قریب الوقوع ہے؟
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ ممکنہ صدارت کے ساتھ ہی مغربی کنارے اور غزہ کو اسرائیلی زیر قبضہ علاقوں میں باقاعدہ طور پر شامل کرنے کے خدشات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، یہ پیش رفت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برخلاف ہے، جو اسرائیلی قبضے اور الحاق کو غیرقانونی قرار دیتی ہیں۔
ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں اُن کی پالیسیوں نے واضح طور پر انتہاپسند صہیونی موقف کی حمایت کی، جن میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، امریکی سفارتخانے کی وہاں منتقلی، گولان کی پہاڑیوں کا الحاق، اور متنازعہ منصوبہ ڈیل آف دی سنچری شامل تھا—جس نے فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی کنارے کے بڑے حصے کو اسرائیلی قبضے میں دینے کی راہ ہموار کی۔
یہ پس منظر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹرمپ اپنے دوسرے صدارتی دور میں اسی طرز کی پالیسی اختیار کریں گے اور اسرائیل کے غزہ اور مغربی کنارے پر الحاق جیسے اقدامات کی کھلی حمایت کریں گے، چاہے وہ بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی قرارداد 242 اور 2334 کے منافی ہی کیوں نہ ہوں۔
غزہ میں اسرائیلی حکمت عملی: تباہی، محاصرہ اور جبری نقل مکانی
حالیہ برسوں میں، خاص طور پر طوفان الاقصیٰ کے بعد، اسرائیل نے غزہ میں جارحانہ حکمت عملی اپنائی ہے۔ بڑے پیمانے پر بمباری، رہائشی علاقوں کی تباہی، اور مسلسل ناکہ بندی نے وہاں کی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق، غزہ کی 70 فیصد سے زائد بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکی ہے، اور یہ علاقہ اب عملی طور پر ناقابلِ رہائش بن چکا ہے۔
مغربی کنارے میں دباؤ اور نسلی تطہیر کا خدشہ
مغربی کنارے میں غیرقانونی یہودی بستیوں کی توسیع، فلسطینی گھروں کی مسماری، اور آبادکاروں کی ریاستی حمایت یافتہ پرتشدد کارروائیوں نے مقامی آبادی پر زمین چھوڑنے کے لیے دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ سب ایک طویل المدت حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی نسلی صفائی ہے، صہیونی ریاست ایسے حالات پیدا کر رہی ہے جن میں فلسطینیوں کے لیے وہاں رہنا ناممکن ہو، تاکہ ان علاقوں پر اپنا دعویٰ مزید مضبوط کیا جا سکے۔
ٹرمپ کی واپسی اور الحاق کا خطرہ
مغربی کنارے اور غزہ کے اسرائیل میں الحاق کا امکان کئی عوامل پر منحصر ہے، لیکن موجودہ صورت حال اس امکان کو زیادہ قریب تر ظاہر کر رہی ہے،اول، ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو الحاق کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں مزید حوصلہ دے سکتی ہے،ٹرمپ کی پہلی مدت میں مغربی کنارے کے تقریباً 30 فیصد حصے کے الحاق کا منصوبہ سنجیدگی سے زیر غور آیا تھا، جو بین الاقوامی دباؤ اور داخلی رکاوٹوں کے باعث مؤخر ہوا، تاہم موجودہ اسرائیلی حکومت میں دائیں بازو کے شدت پسند عناصر کی شمولیت کے ساتھ، یہ منصوبہ ایک بار پھر تیزی سے فعال ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی ممکنہ ویٹو پالیسی، اور عالمی برادری کی کمزور سفارتی حکمت عملی، اسرائیل کو قانونی اور سیاسی رکاوٹوں سے آزاد کر سکتی ہے،موجودہ بحران، جبری ہجرت اور تباہی کی فضا فلسطینی عوام کو کمزور کر سکتی ہے، جو اسرائیلی اہداف کی تکمیل میں مددگار ہو سکتی ہے۔
ممکنہ رکاوٹیں
تاہم، اسرائیلی عزائم کی راہ میں کچھ بڑی رکاوٹیں بھی موجود ہیں، جن میں فلسطینی عوام کی مزاحمت، علاقائی ممالک (خصوصاً اردن اور مصر) کی ممکنہ مخالفت، اور بین الاقوامی عوامی رائے عامہ شامل ہیں،یہ عناصر تل ابیب کے لیے سیاسی لاگت کو بڑھا سکتے ہیں، حتیٰ کہ امریکی حمایت کی موجودگی میں بھی۔
 غزہ، طاقت کا قانون اور عالمی نظم کی موت
اسرائیلی وزیرِ جنگ یسرائیل کاٹز، جو وزیر اعظم نیتن یاہو کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں، نے رفح کے مکمل محاصرے کے بعد ایک چونکا دینے والا بیان دیا کہ غزہ کے عوام کے پاس اب صرف ایک راستہ باقی ہے ہجرت کر کے کسی اور ملک چلے جانا،یہ بیان نہ صرف انسانی ہمدردی کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی بھی صریح نفی کرتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ عالمی سطح پر دائیں بازو کی قوتیں امریکہ، اسرائیل، مجارستان، ارجنٹینا وغیرہ ایک نئے جہانِ تصور کی تشکیل میں سرگرم ہیں، جہاں جغرافیائی حدود، انسانی حقوق اور قومی خودمختاری جیسے اصولوں کی جگہ طاقت کا قانون لے رہا ہے۔ غزہ کی موجودہ صورت حال کو لبرل بین الاقوامی نظام کے اختتامی پردے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جسے اب شدت پسند قوم پرست قوتیں منہدم کر رہی ہیں۔
آج کے عالمی منظرنامے میں، جہاں کثیرالجہتی سفارتکاری کی جگہ انفرادی طاقت کے مظاہرے لے رہے ہیں، اقوامِ متحدہ جیسی تنظیمیں بےاثر دکھائی دیتی ہیں، اگر دنیا کی وہ قوتیں جو انصاف، امن، اور کثیرالجہتی پر یقین رکھتی ہیں، واقعی یکطرفہ جارحیت کے خلاف بند باندھنا چاہتی ہیں، تو انہیں سب سے پہلے غزہ میں جاری انسانی المیے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

مشہور خبریں۔

بھارتی جیلوں میں نظربند کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں منتقل کیا جائے: ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن

?️ 1 مئی 2021سرینگر (سچ خبریں)  بھارت میں کورونا وائرس کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے

تجارتی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا:برطانوی وزیراعظم   

?️ 7 اپریل 2025 سچ خبریں:برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر نے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ

برطانیہ میں مہنگائی کی حیران کن شرح

?️ 22 جون 2023سچ خبریں:برطانوی ادراۂ شماریات کا کہنا ہے کہ اس ملک میں کرائے

امریکہ نے لگائی ایران کے پیٹرو کیمیکل سیکٹر پر پابندیاں

?️ 1 اگست 2022سچ خبریں:  امریکی محکمہ خزانہ نے پیر کے روز اعلان کیا کہ

یمنی مزاحمت اور جنگ کے سامنے سعودی میڈیا کی شکستوں پر ایک نظر

?️ 19 جنوری 2022سچ خبریں:سعودی میڈیا عملی طور پر میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے میدان

وزیر دفاع کی سی ایم ایچ سیالکوٹ آمد، بھارتی جارحیت میں زخمی افراد کی عیادت

?️ 14 مئی 2025سیالکوٹ (سچ خبریں) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی سی ایم ایچ

شام میں فوجی آپریشن کریں گے:ترکی

?️ 3 جولائی 2022سچ خبریں:ترک صدر نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ان

میرے بیٹے بہت پریشان تھے: عمران خان

?️ 10 نومبر 2022لاہور: (سچ خریں) عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے جہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے