سچ خبریں:گروہ تحریرالشام کو حالیہ دنوں میں شام میں جاری جنگ کے آغاز اور اب اس کے دمشق پر قبضے نیز 54 سالہ بعث پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اکثر سنا جا رہا ہے، یہ تبدیلی اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ہمیں اس گروہ اور اس کے ارکان کے بعض نظریات کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 2021 سے یہ گروہ شام کی بعثی حکومت کے خلاف سب سے طاقتور فوجی گروہ کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن اس کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
گروہ تحریرالشام (HTS) شام میں سب سے طاقتور اور متنازعہ مسلح گروپوں میں سے ایک ہے، جو جنوری 2017 میں شام کی خانہ جنگی کے دوران قائم ہوا۔
اس گروہ کی تشکیل کا مقصد مختلف اسلام پسند گروپوں کو ایک منظم اور طاقتور فوجی اتحاد میں یکجا کرنا تھا تاکہ وہ شامی حکومت کے خلاف مؤثر طور پر لڑ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: شام کے تیل کے کنوؤں پر کن گروپوں کا کنٹرول ہوگا؟
اس گروہ کی تشکیل اور اس کی کارروائیوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی تاریخ، فوجی حکمت عملیوں اور سیاسی چیلنجز کا گہرا تجزیہ کرنا ہوگا۔
تاریخ اور اتحاد سازی
شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد 2011 میں مختلف سیاسی اور ایدیولوجی کے حامل گروہ وجود میں آئے۔ جبههالنصرہ، جو کہ القاعدہ کا شام میں دھڑا تھا، ان گروپوں میں سے ایک اہم گروہ تھا جس نے اپنی تیز اور طاقتور فوجی کارروائیوں کے ذریعے شہرت حاصل کی۔ تاہم، اس گروہ کی القاعدہ سے وابستگی نے عالمی سطح پر اس کے لیے ایک قابل قبول سیاسی چہرہ تشکیل دینے میں رکاوٹ ڈالی۔
2016 میں النصرہ فرنٹ نے القاعدہ سے فاصلہ اختیار کرنے اور اپنی عوامی تصویر کو بہتر بنانے کے لیے اپنا نام تبدیل کر کے فتحالشام فرنٹ رکھ لیا، پھر 2017 کے اوائل میں اس نے نورالدین زنکی اور دیگر مقامی گروپوں کے ساتھ ضم ہو کر تحریرالشام کی بنیاد رکھی۔
یہ اتحاد ایک طاقتور فوجی اور سیاسی قوت بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا تاکہ نہ صرف اسد حکومت کے خلاف لڑ سکے بلکہ دوسرے مخالف گروپوں پر بھی اثر انداز ہو سکے۔
شمال مغربی شام میں سرگرمیاں
گروہ تحریرالشام کی اہم موجودگی شمال مغربی شام، خاص طور پر ادلب کے علاقے میں ہے، جس کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔
ادلب کا ترکی کے ساتھ سرحدی تعلق اس گروہ کو فوجی امداد تک رسائی اور جنگجوؤں کے آمد و رفت کے لیے سہولت فراہم کرتا ہے۔
ادلب ان داخلی پناہ گزینوں اور مخالف گروپوں کے لیے بھی پناہ گاہ ہے جو حکومت کے فوجیوں کے حملوں سے بچ کر اس علاقے میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔
اس وجہ سے ادلب جنگ کی ایک اہم ترین جگہ بن چکا ہے، جہاں بین الاقوامی مذاکرات بھی جاری رہتے ہیں۔
تحریرالشام نے اپنے مضبوط فوجی اثر و رسوخ اور مقامی حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حریفوں پر برتری حاصل کی۔
ادلب اور اس کے اطراف پر کنٹرول اس گروہ کی ایک بڑی اسٹریٹجک کامیابی تھی، جس نے انہیں شمال مغربی شام میں غالب قوت کے طور پر تسلیم کروا دیا۔
تحریرالشام کی شامی قومی نجات حکومت کی بیعت
گروہ تحریرالشام کی تشکیل ایک ایسی سلسلے کا حصہ تھی جس میں اس گروہ نے اپنے حامیوں کے خلاف متعدد قتل و غارت کی کارروائیاں کیں۔
اس کے جواب میں، تحریرالشام نے القاعدہ کے وفاداروں کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن شروع کیا اور اپنے اثر و رسوخ کو ادلب میں مستحکم کیا۔
اس کے بعد سے، تحریرالشام نے اپنی پوزیشن کو عالمی سطح پر بہتر بنانے کے لیے سوری سازی کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کیا ہے، جو کہ ایک مستحکم اور مرکوز شہری انتظامیہ قائم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
یہ انتظامیہ خدمات فراہم کرنے، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ رابطے بڑھانے اور نظم و قانون قائم رکھنے کے لیے کام کرتی ہے۔
تحریرالشام نے شامی قومی نجات حکومت کی بیعت کی، جو ادلب میں اپوزیشن کی متبادل حکومت تھی، اس بیعت کے نتیجے میں، شامی قومی نجات حکومت نے اس گروہ کی سماجی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی شبیہہ کی بحالی کا اہم کردار ادا کیا۔
تحریرالشام کی القاعدہ اور تکفیری گروپوں سے علیحدگی کی کوششیں
گزشتہ سات سالوں میں، تحریرالشام نے خود کو ایک جائز سیاسی کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو نہ تو عالمی جہاد کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی دیگر جهادی گروپوں سے کوئی تعلق رکھتا ہے۔
تاہم، بیشتر تجزیہ کاروں اور مشاہدین کے مطابق، تحریرالشام کو ایک تکفیری دہشت گرد گروہ سمجھا جاتا ہے جس کی آئیڈیالوجی کا تعلق القاعدہ اور داعش جیسے دیگر تکفیری گروپوں سے ہے، اس کے باوجود، تحریرالشام نے ہمیشہ اپنے آپ کو دہشت گرد اور تکفیری ہونے کے لیبل سے آزاد کرنے کی کوشش کی ہے۔
تحریرالشام کی کامیابی کے عوامل
تحریرالشام نے کچھ کلیدی عوامل پر انحصار کرتے ہوئے خود کو شام میں ایک اہم طاقت کے طور پر متعارف کرایا ہے:
1. موثر فوجی حکمت عملی:
اس گروہ نے جنگی تجربات، پارٹیزن حربوں اور اپنے زیر اثر گروپوں کے درمیان ہم آہنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے ڈھونڈ کر مارنے اور اچانک حملوں کی تکنیکوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔
2. مقامی اور سماجی چینلز:
تحریرالشام نے ابتدا ہی سے مقامی سماجی اور ثقافتی ڈھانچوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
اس گروہ نے مقامی خدماتی ڈھانچے قائم کرنے اور عدلیہ کے اداروں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
یہ اقدام داعش سے خود کو علیحدہ کرنے کی ایک مؤثر حکمت عملی ثابت ہوئی اور اسی طرح اس نے شام کے دوسرے علاقوں میں اسد حکومت کی کمزور انتظامیہ کے مقابلے میں ایک طاقتور حکومت کا تصور قائم کیا۔
3۔ دشمنان کی کمزوریوں اور دراڑوں کا فائدہ اٹھانا
تحریرالشام کی ایک اہم کامیابی یہ ہے کہ اس گروہ نے دیگر مخالف گروپوں یا حکومتِ سوریہ کے درمیان داخلی اختلافات اور شکافوں کا فائدہ اٹھا کر خود کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کیا اور اپنے اثر و رسوخ کو وسیع کیا۔
4۔ سیاسی اور میڈیا حکمت عملی
جولانی گروہ نے اپنے سیاسی حکمت عملیوں میں بہتری لانے اور میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے ذریعے اپنی عوامی تصویر کو بہتر بنانے کی کوشش کی، خاص طور پر جب اس نے القاعدہ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا۔ یہ اسٹریٹجک تبدیلیاں انہیں عالمی اور مقامی سطح پر ایک زیادہ جائز چہرہ دینے میں کامیاب ہوئیں۔
5۔ غیردولتی خارجی حمایت
اگرچہ تحریرالشام نے القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی تاریخ کی وجہ سے بین الاقوامی پابندیوں اور مذمتوں کا سامنا کیا، تاہم اس گروہ نے غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) سے تکنیکی اور مالی امداد حاصل کرنے کے لیے مختلف چینلز کا استعمال کیا، جس کی بدولت وہ ادلب کے عوام کی زندگی کے حالات میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
6۔ چیلنجز اور رکاوٹیں
تحریرالشام کی کامیابیوں کے باوجود یہ گروہ ابھی بھی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، ان میں سب سے بڑا چیلنج اپنے اراکین اور اس کے ماتحت گروپوں کے درمیان مجموعی کنٹرول اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ہے۔
داخلی نظریاتی اور حکمت عملی کے اختلافات اس بات کا باعث بن سکتے ہیں کہ گروہ ٹوٹ جائے یا اس کے مشترکہ مقاصد کی تکمیل میں مشکلات آئیں۔
یہ مسئلہ دمشق کی فتح کے بعد مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے، کیونکہ جب ان کا مشترکہ مقصد یعنی دمشق پر قبضہ مکمل ہو چکا ہے، تو یہ اتحاد جس میں مختلف مسلح گروہ اور مختلف نظریاتی اور سیاسی عقائد رکھنے والے شامل ہیں، اب اپنے سیاسی اقتدار کے حصے کے لیے لڑ سکتے ہیں، یا پھر شام کے مخصوص علاقوں پر قابض ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
یہی مسئلہ فتح المبین آپریشن روم کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، جو اسد حکومت کے خلاف مختلف گروپوں کا مشترکہ آپریشن ہے۔
تحریرالشام کے ترکی کے ساتھ تعلقات
ترکی نے 2018 میں تحریرالشام کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور کہا کہ وہ اس گروہ کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں تحریرالشام اور انقرہ کے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان میدان جنگ میں جو روابط اور حقائق سامنے آئے ہیں، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ترکی کی حکومت نے اسد حکومت کو گرانے کے لیے مالی، لاجسٹک، مشاورتی اور انٹیلی جنس حمایت فراہم کی۔
اس تعاون کا ایک اہم ثبوت یہ ہے کہ تحریرالشام اور ترکی کے حمایت یافتہ فوجی گروپوں نے کئی آپریشنز میں ایک ساتھ کام کیا ہے۔ ۲۰۱۷ کے بعد سے متعدد آپریشنز میں تحریرالشام اور خاص طور پر ابومحمد جولانی کے عمل پسند دھڑے نے ترک حمایت یافتہ آزاد سوری فوج کے ساتھ مل کر جنگ کی اور مشترکہ آپریشن رومز میں شامل ہو کر لڑا۔
تحریرالشام اور ترکی کی سیاسی حکمت عملی؛ اسٹرٹیجک حمایت اور مستقبل کی چیلنجز
کلینگندال فاؤنڈیشن نے نومبر 2019 میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ترکی نے 2018 سے ہی اپنے حکومتی اہداف کے تحت تحریرالشام میں موجود عملگرا عناصر کو تندرو عناصر سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ترکی کی جانب سے کی جانے والی یہ حکمت عملی، خاص طور پر اس وقت اہمیت اختیار کرتی ہے جب ہم دیکھیں کہ ترکی نے نہ صرف اس گروہ کی فوجی بلکہ سیاسی حمایت بھی کی ہے۔
ترکی کئی سالوں سے تحریرالشام اور اس کے رہنماؤں کا اہم حامی رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ترکیہ کی حمایت نہ ہوتی تو تحریرالشام نہ صرف اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ پاتی بلکہ ادلب کے وسیع علاقے پر قابض بھی نہ ہو پاتی۔
ادلب کو اس کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے، جو ترکی اور شمالی شام کے درمیان ایک اہم ترانزٹ روٹ ہے، ترکیہ کے لیے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
تحریرالشام کا سیاسی اور فوجی اثر
تحریرالشام نے اپنی فوجی حکمت عملی اور سیاسی حالات کو بہتر طور پر سمجھتے ہوئے خود کو شام کی اپوزیشن کے ایک اہم فریق کے طور پر پیش کیا ہے۔
تاہم، ان کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے، کیونکہ گروپ کو داخلی اور خارجی دونوں طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، جو ان کے اثرورسوخ اور کامیابی کا تعین کریں گے۔
شام کی مسلح تحریکوں میں ہمیشہ مختلف نظریات اور اَیدیالوجیز رہی ہیں۔ گزشتہ دہائی میں یہ گروہ اپنے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور حکومت کے ایک کامیاب متبادل کی تشکیل کے لیے کوشاں رہا ہے۔ تاہم، داخلی اختلافات اور غیر یکجہتی نے ان کی حکومتی صلاحیتوں کو کمزور کیا ہے۔
حلب اور حماہ میں تحریرالشام کا کردار
حلب اور حماہ میں، تحریرالشام نے ایک مختلف کردار اپنایا ہے، جہاں وہ شہریوں اور ان کی املاک کے حقوق کی حفاظت کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ، ان کے فوجی طرز عمل میں نظم و ضبط اور غیر فوجی انفراسٹرکچر کی حفاظت پر زور دیا جا رہا ہے، جو کہ ان کے حکومتی انتظام کی بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔
تحریرالشام نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں اقلیتی گروپوں اور مختلف مذہبی و نسلی برادریوں کے ساتھ روابط بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کی قیادت کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں عام شہریوں کی حفاظت اور شام کی ثقافتی ورثے کی قدردانی کا عندیہ ملتا ہے، جو عالمی سطح پر ان کی سیاسی اور اخلاقی جائزیت حاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
آگے کا راستہ
حلب اور حماہ میں کامیابی کے بعد، اگر تحریرالشام اپنے حکومتی نظم و ضبط کو دمشق اور دیگر علاقوں میں لاگو کرنے میں کامیاب رہتا ہے، تو یہ شام کے مستقبل میں اس کی سیاسی طاقت کو ظاہر کرے گا۔
ان علاقوں میں فوجی کنٹرول کے علاوہ، مختلف مذہبی، نسلی اور ثقافتی گروپوں کے ساتھ ایک مربوط حکومتی انتظام کے لیے چیلنجز درپیش ہیں، جو تحریرالشام کے لیے اہم امتحان ثابت ہوگا۔
مزید پڑھیں: بشار اسد نے اقتدار کی کرسی کیوں چھوڑ دی؟
دنیا بھر میں ان کی حکومتی حکمت عملی کو دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر جب بات اقلیتی گروپوں اور مذہبی مسائل کی آتی ہے۔ اگر تحریرالشام شام کے بڑے شہروں میں بہتر حکومتی انتظام اور امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ اس کے لیے مستقبل میں بڑے سیاسی فوائد کا سبب بن سکتا ہے۔