(سچ خبریں) طالبان کی جانب سے حملوں کی دوسری لہر دراصل مذکورہ صوبوں میں اضلاع کے زوال کے ساتھ ہی شروع ہوگئی ہے، حملوں کی دوسری لہر میں، طالبان نے حکومت سے درجنوں اضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے، ان میں سے زیادہ تر اضلاع ملک کے شمالی صوبوں میں واقع ہیں، لہٰذا حکومت کی جانب سے جو عوام کو کہا گیا کہ حکمت عملی کی بنا پر افواج واپس بلائی گئی ہیں وہ سب جھوٹ ثابت ہوئی ہیں۔
مئی میں، طالبان نے حملوں کی پہلی لہر کا آغاز کیا جس کا مقصد اسٹریٹجک پوائنٹس پر قبضہ کرنا تھا اور ملک کے جنوب، مغرب اور مشرق میں کچھ صوبوں کے مراکز کا محاصرہ کرنا تھا۔
طالبان کے حملوں کی لہر کا حکومتی دستوں کی جانب سے زبردست ردعمل کے ساتھ مقابلہ کیا گیا، مئی کے آخری دنوں میں، یہ بات واضح ہوگئی کہ طالبان کے خلاف جنگ میں سرکاری افواج کافی مضبوط ہیں، اس کی وجہ سے لوگوں میں ملک کے مستقبل کے بارے میں تھوڑی سی امید پیدا ہوگئی تھی، لیکن اس مہینے کے آخری دنوں میں سب کچھ طالبان کے حق میں تبدیل ہوگیا، اور میدان وردک، لغمان اور نورستان صوبوں میں یکے بعد دیگرے کئی اضلاع طالبان کے قبضے میں آگئے، جس کے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ وہ ان اضلاع سے حکمت عملی اپناتے ہوئے واپس جارہی ہے، حکومت کے اس اعلان سے لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ ان اضلاع کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اسے طالبانی قبضے کی طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیئے۔
طالبان نے حکومت سے درجنوں اضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے، ان میں سے زیادہ تر اضلاع ملک کے شمالی صوبوں میں واقع ہیں، لہٰذا حکومت کی جانب سے جو عوام کو کہا گیا کہ حکمت عملی کی بنا پر افواج واپس بلائی گئی ہیں وہ سب جھوٹ ثابت ہوئی ہیں۔
طالبان کی جانب سے حملوں کی دوسری لہر، جس کا اصلی مقصد متعدد اضلاع پر قبضہ کرنا ہے اس پر ابھی تک حکومت کی جانب سے کنڑول نہیں ہوپایا ہے، ان حملوں کی لہر کا بڑا مرکز ملک کے شمالی صوبے ہیں، طالبان ان حملوں سے مبینہ طور پر شمالی، اضلاع پر قبضہ کرکے جنوبی، مغربی اور مشرقی صوبوں میں اپنی شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔
ملک کے شمالی صوبوں میں صورتحال انتہائی خطرناک ہے، طالبان بہت تیزی سے متعدد اضلاع پر قبضے کررہے ہیں، ایک صوبے میں راتوں رات پانچ اضلاع پر قبضہ کرلینا، پچھلے 20 سالوں میں غیر معمولی ہے، ابھی کل ہی اعلان کیا گیا ہے کہ اکیلے شمالی صوبہ تخار کے پانچ اضلاع حکومت کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں، اسی دوران، سمنگان کا ایک ضلع اور قندوز کا دوسرا ضلع طالبان کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔
قندوز پولیس ترجمان نے مزید بتایا کہ افغان نیشنل آرمی اور پولیس نے امام صاحب ضلعے کے دفاع کے لیے مشترکہ کوششیں کیں۔ تاہم، اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان سے لڑائی میں دونوں جانب کتنی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ امام صاحب پر انہوں نے قبضہ کر لیا ہے، قندوز پولیس ترجمان کے بقول طالبان نے حالیہ جھڑپوں کے دوران دیگر کئی اضلاع سمیت قندوز صوبے کے ضلع دشتِ آرچی پر بھی قبضہ کیا ہے، یہ ضلع امام صاحب سے متصل ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق حالیہ چند روز کے دوران طالبان نے تین شمالی صوبوں قندوز، بغلان اور بلخ کے متعدد اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔
طالبان کی جانب سے اپنی ویب سائٹ اور واٹس ایپ گروپوں میں کئی ایسی ویڈیوز جاری کی گئی ہیں جن میں وہ سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے دعوے کر رہے ہیں۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ، جنگ کے بدلتے جغرافیہ کے ساتھ، حکومتی دستے مزاحمت اور آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہے ہیں؟ملک کے شمال میں اضلاع کے ڈرامائی طور پر طالبان کے قبضے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ حکومت کے نقصان میں تبدیل ہوچکی ہے۔
جنگ کے جغرافیے کے علاوہ ، کیا بدلا ہے کہ طالبان اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں؟ کیا طالبان کے شمال میں زوال ایک ایسا سیاسی منظر نامہ ہے جس سے لوگ واقف ہی نہیں ہیں؟ جنگ کے جغرافیے کے علاوہ، کیا بدلا ہے کہ طالبان اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں؟ کیا طالبان کی جانب سے شمالی علاقوں پر قبضہ ایک ایسا سیاسی منظر نامہ ہے جس کے بارے میں لوگوں کو کچھ نہیں بتایا جارہا؟
ملک کے شمال میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور لوگوں کا بغیر کسی اطلاع کے سیاسی شکار بننا اور پردے کے پیچھے کھیلوں کے بارے میں جانے بغیر کسی انتہا پسند، غاصب، بے رحم اور دہشت گردگروہ کے ہاتھوں میں آنا انتہائی ظالمانہ ہوگا، توقع کی جاتی ہے کہ حکومتی قیادت عوام کو ملک کے شمال میں جاری جنگ کے آس پاس موجود تمام ابہاموں سے آگاہ کرے گی۔