کیا ہمارے خفیہ ادارے شہریوں کی کالز اور پیغامات سنتے ہیں؟

کیا ہمارے خفیہ ادارے شہریوں کی کالز اور پیغامات سنتے ہیں؟

?️

سچ خبریں: پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران، وزیراعظم، ان کی اہلیہ، وفاقی وزرا، اور سپریم کورٹ کے ججوں کی ٹیلیفونک گفتگو یا آڈیوز سوشل میڈیا پر افشا ہوتی رہی ہیں۔

ہر بار جب کوئی ایسی آڈیو منظر عام پر آتی ہے، تو اس کی مذمت کے ساتھ یہ سوال بھی شدت سے اٹھتا ہے کہ ایسی معلومات ریکارڈ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے اور یہ کیسے اور کیوں کیا جاتا ہے۔

اسی نوعیت کی ایک آڈیو سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کی تھی۔ اس کے افشا ہونے کے بعد، بشریٰ بی بی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ان کی ذاتی آڈیو کال کو تبدیل کرکے عوامی سطح پر پیش کیا گیا، جس کا مقصد انہیں ہراساں کرنا اور ان کی خاندانی زندگی پر منفی اثرات ڈالنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے عدالتی معاملات میں ’ایجنسیوں‘ کی مداخلت سے متعلق درخواستیں یکجا کردیں

سماعت کے دوران، یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں ‘لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم’ نامی نظام کے تحت خفیہ اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں ذکر کیا کہ پاکستانی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت کو بتایا کہ کسی بھی ایجنسی کو نگرانی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ عدالت نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ رپورٹ جمع کرائے کہ ‘لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم’ لگانے کا ذمہ دار کون ہے، جو شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔

بی بی سی نے پی ٹی اے اور ٹیلی کام کمپنیوں کے ملازمین کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ‘لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم’ کیسے کام کرتا ہے اور اس نظام کی تفصیلات کیا ہیں۔

’لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم‘: کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟

ماہرین کے مطابق، ‘لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم’ ایک ایسا نظام ہے جو پاکستانی صارفین کی فون کالز، پیغامات اور دیگر ڈیٹا تک رسائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے تمام فون کالز اور برقی پیغامات کو مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد دہشتگردی اور سنگین جرائم کے خلاف جنگ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد کرنا ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے اس نظام کے بارے میں موقف لینے کی کوشش کی گئی، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لیے آفیشل بیان نہیں دیا جا سکتا۔

ایک ٹیلی کام کمپنی کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ پی ٹی اے لائسنس جاری کرتے وقت شرط عائد کرتی ہے کہ ٹیلی کام کمپنیاں نہ صرف ‘لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم’ نصب کریں گی بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس تک رسائی بھی دیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اداروں کو کنیکٹویٹی سینٹر تک رسائی دی جاتی ہے، جس سے وہ کمپنی کے تمام صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرنے، کالیں سننے اور میسجز پڑھنے کا اختیار حاصل کر لیتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے مطابق، آڈیو کالز کی ریکارڈنگ اور لیک ہونے کے حوالے سے ایک درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ ٹیلی کام کمپنیوں نے پاکستانی خفیہ اداروں کو اپنے تقریباً 40 لاکھ صارفین کے فون کالز، میسجز اور دیگر ڈیٹا تک ‘لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم’ کے ذریعے رسائی دی ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ پی ٹی اے نے لائسنس یافتہ ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ ‘لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم’ درآمد کریں اور متعلقہ ایجنسیوں کے استعمال کے لیے نصب کریں۔ اس مقام کو ‘سرویلنس سینٹر’ کا نام دیا گیا ہے، جہاں ایک بٹن کلک کرکے کسی بھی فرد کو ٹریس یا ٹریک کیا جا سکتا ہے۔

اس عمل کے لیے صارف کے موبائل سِم نمبر یا موبائل کے آئی ایم ای آئی نمبر کا استعمال کیا جاتا ہے، عدالت کے حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹریکنگ یا ٹریسنگ کا عمل شروع ہونے کے بعد ‘لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم’ خودکار طریقے سے کام شروع کر دیتا ہے اور بغیر کسی انسانی مداخلت کے ایس ایم ایس، کال ڈیٹا رپورٹس اور میٹا ڈیٹا سرویلنس سینٹر میں موجود مانیٹرنگ سینٹر کے سرور کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔

نگرانی کی اجازت کیسے دی جاتی ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایڈشنل اٹارنی جنرل اور دیگر وکلا نے آگاہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کسی بھی شخص کی نگرانی (ای میلز، ایم ایم ایس پڑھنے اور فون کالیں سننے یا ریکارڈ کرنے) کی اجازت انویسٹیگیشن فور فیئر ٹرائل ایکٹ، 2013 کے تحت دی جاتی ہے۔

اس قانون کے تحت، کسی بھی شخص کی نگرانی شروع کرنے سے پہلے، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ہائی کورٹ کے کسی جج سے وارنٹ یا اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔

ایک ماہر وکیل کے مطابق، یہ قانون 2013 میں اس مقصد کے تحت منظور کیا گیا تھا کہ ایجنسیوں کی نگرانی قانونی ہو اور وہاں سے حاصل کردہ معلومات کو بطور ثبوت استعمال کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ نگرانی شروع کرنے سے پہلے ہائی کورٹ کے جج سے اجازت لینا ضروری ہے، اور پھر وہ اجازت نامے کے ساتھ ٹیلی کام کمپنی کے پاس جاتے ہیں تاکہ مطلوبہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جا سکے۔

ٹیلی کام کمپنی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ عام قانون کے مطابق اداروں کو کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے حکومتی یا عدالتی حکم نامہ لینا ہوتا ہے، لیکن جب وہ پہلے ہی کنیکٹویٹی سینٹر کے ذریعے صارفین تک رسائی رکھتے ہیں تو وہ حکومتی یا عدالتی حکم نامہ کیوں دکھائیں گے؟

اس سوال پر کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف ٹیلی کام کمپنیوں کے دو فیصد صارفین تک رسائی حاصل ہے، عہدیدار نے کہا کہ جب ایک بار آپ نے ان اداروں کو اپنے سسٹم یا صارفین تک رسائی دے دی تو پھر کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس کی کالیں سن رہے ہیں یا ایس ایم ایس پڑھ رہے ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسیوں کے پاس بیک وقت تمام صارفین تک رسائی کے وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی یہ انسانی طور پر ممکن ہے۔

ٹیلی کام کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق، ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے سسٹم تک رسائی دینے کے لیے قانونی طور پر پابند ہیں۔ یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کی جاتی ہے تاکہ جرائم کو روکا جا سکے، لیکن اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس کا اچھا استعمال کرتے ہیں یا غلط۔

کیا دنیا میں ایسا نظام کہیں اور استعمال ہوتا ہے؟

یورپی ٹیلی کمیونیکیشن اسٹینڈرڈز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، ’لافُل انٹرسیپشن‘ کی اصطلاح کا مطلب حکومت کو نجی کمیونیکیشن جیسے ٹیلی فون کالز یا ای میلز تک رسائی دینا ہے۔

تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے اپنے تفصیلی حکم نامے میں لکھا ہے کہ شہریوں کی ٹیلیفون کالز کی ریکارڈنگ بادی النظر میں قانونی طور پر درست نہیں۔

نگرانی کی شفافیت پر سوالات

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شریک بانی صدف خان کے مطابق، دنیا بھر میں سرویلنس یا نگرانی کے قوانین طے ہو چکے ہیں، خصوصاً دہشت گردی اور دیگر جرائم کی تفتیش کے لیے۔ صدف خان نے بی بی سی کو بتایا کہ نگرانی کے عمل میں خدشہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کی نگرانی جرم کے شبے پر شروع کر دی جائے جبکہ سزا نہ ہوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل میں زیادہ سے زیادہ تحفظ ہونا چاہیے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ کم ہو جائے۔

پاکستان میں نگرانی کے قوانین

صدف خان نے بتایا کہ پاکستان میں 2013 میں ’انوسٹیگیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ‘ کے تحت پہلی بار لائیو سرویلنس کے حوالے سے قانون سازی کی گئی، جس میں عدالتی طریقہ کار اور وارنٹ لینے کی مدت کو طے کیا گیا، انہوں نے کہا کہ زیادہ تر حکومتوں کے پاس ایسا نظام موجود ہوتا ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف ہے اور کیا قانون کے مطابق وارنٹ لیا جاتا ہے یا نہیں۔

شفافیت پر سوالات

صدف خان نے مزید کہا کہ اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق شفافیت پر بہت سے سوالات ہیں کہ یہ نظام کہاں سے خریدا گیا، کیا یہ باہر سے لایا گیا یا مقامی طور پر تیار ہوا، اور اس پر کتنا خرچہ ہوا؟ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ کتنی بار استعمال ہوا، اور جس تفتیش میں استعمال ہوا، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ڈیٹا کو رکھنے کا کیا طریقہ ہے؟ ان سوالات کے جواب عدالتی دستاویزات میں نہیں ملتے۔

ڈیجیٹل رائٹس اور فیئر ٹرائل ایکٹ

پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ‘بولو بھی’ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کے مطابق، فیئر ٹرائل ایکٹ میں لکھا ہے کہ آپ کسی پر سرویلنس نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ کے پاس عدالت کا وارنٹ نہ ہو۔ آرٹیکل 14 آپ کو ’رائٹ ٹو پرائیویسی‘ اور ’پرائیویسی آف ہوم‘ کی گارنٹی دیتا ہے، جس میں کمیونیکیشن بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: انٹیلیجنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم، کابینہ ہے، جسٹس اطہر من اللہ

پارلیمنٹ کی ذمہ داری

اسامہ خلجی کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ پرائیویسی پروٹیکشن یقینی بنائی جا سکے اور ڈیٹا پروٹیکشن قانون پر بھی جلد کام ہونا چاہیے تاکہ شہریوں کے حقوق کو تحفظ ملے، بجائے اس کے کہ ریاست کے مفادات کی حفاظت کی جائے۔ ان کے مطابق، آڈیو لیکس اور جاسوسی کے واقعات ریاست کی خود کو محفوظ کرنے کی کوشش ہوتی ہے، لیکن شہریوں کے حقوق کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

مشہور خبریں۔

حماس کے سامنے اسرائیلی حکام بونے نظر آئے

?️ 16 جنوری 2025سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے باضابطہ اعلان کے بعد

افغان عوام کا امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ

?️ 13 فروری 2022سچ خبریں:امریکہ کے ہاتھوں افغانستان کے اثاثے ضبط کرنے کے خلاف اس

پنجاب میں یونین کونسلز کی حد بندی سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن مسترد

?️ 8 جنوری 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالہیٰ نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر

ایکس کی جانب سے صارفین کی معلومات فروخت کرنے کا فیصلہ

?️ 20 اکتوبر 2024سچ خبریں: مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس کی جانب سے صارفین کی

اڈیالہ جیل میں عمران خان کے سیل کو تھانہ قرار دے دیا گیا، سیکیورٹی تعینات

?️ 22 نومبر 2024 راولپنڈی: (سچ خبریں) اڈیالہ جیل میں قید بانی پاکستان تحریک انصاف

امریکہ کتنی بارے کہے کہ وہ کسی سے وفا نہیں کر سکتا

?️ 29 نومبر 2023سچ خبریں: پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ کے پاس اب

شام میں غیر معمولی امریکی دہشتگردی

?️ 5 اکتوبر 2023سچ خبریں: شام میں روس کے مرکز برائے مصالحت کے نائب نے

نیتن یاہو عبرانی میڈیا کے حملوں کی زد میں کیوں ہے؟

?️ 16 جنوری 2024سچ خبریں:اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات روز بروز اس حد تک بڑھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے