🗓️
سچ خبریں:امریکہ اور روس کے نمائندوں نے ریاض میں ہونے والے اجلاس میں یوکرین بحران کے حوالے سے مثبت اقدامات کیے جبکہ پیرس میں یورپی رہنماؤں کے اجلاس میں واضح اختلافات اور تنازعات ابھر کر سامنے آئے۔
دنیا کے پیچیدہ ترین جغرافیائی سیاسی بحرانوں میں سے ایک یوکرین بحران کو تقریباً تین سال گزر چکے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں میں غیر معمولی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرین جنگ کےعالمی نظام پر سیاسی اثرات
گزشتہ ہفتے کے دوران ایک طرف ماسکو اور واشنگٹن کے مابین تعلقات میں قربت دیکھی گئی جہاں امریکی اور روسی نمائندوں نے سعودی عرب میں خفیہ ملاقاتیں کیں جس میں نہ یوکرین کو شامل کیا گیا اور نہ ہی یورپی یونین کو ،دوسری جانب یورپی ممالک خاص طور پر فرانس کی قیادت میں پیرس میں متعدد اجلاس منعقد کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ریاض اور پیرس میں ہونے والے ان اجلاسوں کے نتائج کیا ہوں گے؟
ٹرمپ-پیوٹن ٹیلیفونک گفتگو اور ریاض اجلاس
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کی شب کو ایک اہم ٹیلیفونک گفتگو کی جس میں دونوں رہنماؤں نے مستقبل قریب میں بالمشافہ ملاقات کی امید ظاہر کی حالانکہ اس ملاقات کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم اس گفتگو نے یورپی اتحادیوں اور یوکرین کے لیے سفارتی پیچیدگیاں مزید بڑھا دی ہیں۔
ٹرمپ-پیوٹن گفتگو کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ریاض میں ایک انتہائی اہم ملاقات کی، یہ ملاقات بند دروازوں کے پیچھے ہوئی اور یوکرین یا یورپی یونین کے کسی بھی نمائندے کو شامل نہیں کیا گیا، ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے اس گفتگو کو مثبت اور تعمیری قرار دیا۔
ماسکو-واشنگٹن تعلقات اور یوکرین کی بڑھتی ہوئی تشویش
کریملن کے مشیر برائے خارجہ پالیسی یوری اوشاکوف نے ایک روسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہم نے باہمی مفادات کو مدنظر رکھنے اور دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے کیونکہ واشنگٹن اور ماسکو دونوں ہی تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ٹرمپ اور پیوٹن کی متوقع ملاقات اگلے ہفتے نہیں ہوگی کیونکہ اس کے لیے مزید سفارتی تیاریوں کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ریاض اجلاس کے بعد کہا آج ہم نے ایک طویل اور مشکل لیکن اہم سفر کا پہلا قدم اٹھایا ہے،ٹرمپ یوکرین جنگ کے جلد خاتمے کے لیے تیز تر اقدامات کرنا چاہتے ہیں اور ہمارا مقصد ایک منصفانہ اور پائیدار معاہدہ حاصل کرنا ہے۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ اور روس نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے چار نکاتی معاہدے پر اتفاق کیا ہے:
1. دونوں ممالک کے دارالحکومتوں میں سفارت خانوں کی دوبارہ بحالی۔
2. یوکرین جنگ کے خاتمے میں مدد کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی ٹیم کی تعیناتی۔
3. جغرافیائی اور اقتصادی تعاون پر بات چیت کا آغاز تاکہ جنگ بندی کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جا سکیں۔
4. ریاض اجلاس میں شریک ممالک کا مذاکرات کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار۔
روس کی شرائط
یوکرین کی نیٹو سے علیحدگی اور غیرجانبداری
ریاض میں ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں تاہم روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ ماسکو نے یوکرین کے نیٹو میں شمولیت سے دستبرداری کو ایک بنیادی شرط قرار دیا ہے۔
روس کا مطالبہ ہے کہ مغربی اتحاد 2008 میں کیے گئے یوکرین کی نیٹو رکنیت کے وعدے کو باضابطہ طور پر واپس لے، ماسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرین کو 1990 کے خودمختاری کے معاہدے پر واپس آنا چاہیے جس میں اس نے خود کو غیر جانبدار ملک قرار دیا تھا کسی بھی فوجی اتحاد میں شامل نہ ہونے کا وعدہ کیا تھا اور جوہری ہتھیاروں سے دور رہنے کا عہد کیا تھا۔
واشنگٹن-کیف تعلقات مزید خراب ہونے لگے
جیسے جیسے امریکہ اور روس کے تعلقات بحال ہو رہے ہیں ویسے ہی واشنگٹن اور کیف کے تعلقات میں دراڑیں گہری ہو رہی ہیں، حالیہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کے درمیان شدید تناؤ اور لفظی جنگ دیکھنے میں آئی ہے جسے عالمی میڈیا میں نمایاں جگہ دی گئی ہے۔
یہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے مابین نئے تعلقات یوکرین کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور اس جنگ کے مستقبل کا انحصار اب عالمی طاقتوں کے سفارتی کھیل پر ہو چکا ہے۔
زلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان بڑھتی کشیدگی؛ الزامات دھمکیاں اور سفارتی بحران
یوکرین اور امریکہ کے تعلقات میں گزشتہ ہفتے سے تیزی سے بگاڑ دیکھنے میں آیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ان کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے اچھی گفتگو ہوئی اور وہ یوکرین جنگ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،اس بیان کے بعد یوکرین کے صدر ولودیمیر زلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ شروع ہوگیا جس نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا۔
ٹرمپ کی زلنسکی پر تنقید؛ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک شدید ردعمل دیتے ہوئے زلنسکی کو انتخابات کے بغیر اقتدار میں آنے والا ایک ڈکٹیٹر قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انہوں نے امریکہ کو دباؤ میں ڈال کر ایسی جنگ میں شامل کر دیا جسے جیتنا ممکن نہیں اور اس پر کھربوں ڈالر خرچ کروائے۔
یہ الزامات محض زبانی حملے تک محدود نہیں رہے بلکہ طنزیہ جملوں میں شدت آ گئی، میامی میں بدھ کی رات ایک تقریر کے دوران ٹرمپ نے خبردار کرتے ہوئے کہا زلنسکی کو تیزی سے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ اس کے پاس کوئی ملک باقی نہیں رہے گا۔
زلنسکی کا جواب؛ امریکی صدر روسی پروپیگنڈے کے جال میں پھنس چکے ہیں
زلنسکی نے ان الزامات کا بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی یہ دعویٰ کہ یوکرین نے جنگ شروع کی ،مکمل طور پر بے بنیاد ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی مقبولیت 4 فیصد نہیں بلکہ 58 فیصد یوکرینی عوام ان پر اعتماد رکھتے ہیں
یوکرینی صدر نے ٹرمپ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ روسی غلط معلومات کے حباب میں پھنس چکے ہیں اور روسی پروپیگنڈے کا شکار ہو رہے ہیں جو امریکہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
امریکی امداد پر تنازع؛ 350 ارب ڈالر کا سوال
دونوں رہنماؤں کے درمیان تنازع کی ایک اور بڑی وجہ امریکی امداد ہے، ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے یوکرین کو 350 ارب ڈالر دیے ہیں جبکہ زلنسکی کے مطابق اب تک جنگ پر 320 ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں جن میں سے 120 ارب ڈالر یوکرینی عوام نے فراہم کیے 200 ارب ڈالر امریکہ اور یورپی یونین سے آئے اور امریکہ کی براہ راست فوجی و مالی امداد 67 ارب ڈالر ہے۔
امریکہ کی حمایت کھونے کے بعد زلنسکی کی یورپی اتحادیوں پر نظریں
زلنسکی کو اب ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ سے مزید مدد ملنے کی امید کم ہوتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یورپی اتحادیوں سے مزید امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
یورپی سفارت کاری کی ناکامی؛ پیرس میں ہنگامی اجلاس
اسی دوران یورپی رہنماؤں نے یوکرین کے لیے ممکنہ تعاون بڑھانے کے لیے پیرس میں دو ہنگامی اجلاس منعقد کیے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی قیادت میں ہونے والے ان اجلاسوں میں برطانیہ جرمنی اٹلی پولینڈ اسپین ڈنمارک ہالینڈ نیٹو کے سکریٹری جنرل مارک روٹے اور یورپی یونین کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
نتائج؛ یورپ یوکرین کی مدد پر تقسیم کا شکار
اجلاس کے بعد یورپی رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں گے اور اس پر اتفاق کیا کہ یوکرین کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہیے،تاہم یورپی یونین میں اب بھی اختلافات موجود ہیں کہ آیا یوکرین کو مزید فوجی امداد دی جائے یا نہیں۔
یہ تمام صورتحال اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ یوکرین اب ایک نازک موڑ پر ہے جہاں امریکہ کی حمایت کمزور پڑ رہی ہے اور یورپ بھی ایک واضح موقف اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
لتاجی کی جلد صحتیابی کیلئے دعا گوہوں: عمران عباس
🗓️ 11 جنوری 2022کراچی (سچ خبریں) بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر بھی عالمی وبا کورونا وائرس
جنوری
عدالت نے علیمہ خان، عظمیٰ خان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا
🗓️ 12 اکتوبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے ڈی
اکتوبر
لاہور ہائی کورٹ کی مونس الٰہی کے دوست کو بازیاب کرانے کی ہدایت
🗓️ 10 جنوری 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی
جنوری
صہیونی ٹیلی ویژن سے مراد غزہ میں راکٹ حملوں سے تل آویو کا خوف
🗓️ 10 اپریل 2022سچ خبریں: داؤد شہاب نے ہفتے کی شام المیادین نیٹ ورک کو
اپریل
انگلینڈ میں ایک بار پھر ہڑتال
🗓️ 21 جولائی 2023سچ خبریں:برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن، جسے BMA کہا جاتا ہے، نے اعلان
جولائی
حماس نے اسرائیل کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس نظام کو کیسے دھوکہ دیا؟
🗓️ 6 دسمبر 2023سچ خبریں: صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک
دسمبر
ترکی اسرائیل سے ایک اور قدم قریب
🗓️ 5 ستمبر 2022سچ خبریں:صیہونی حکومت کے وزیراعظم نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان فضائی
ستمبر
ٹرمپ ہٹلر ہیں:ہلیری کلٹن
🗓️ 25 ستمبر 2022سچ خبریں:ہلیری کلنٹن نے گزشتہ ہفتے اوہائیو میں ٹرمپ کی انتخابی ریلی
ستمبر