سچ خبریں:سیول میں عوامی عدم اطمینان اور حکومت یون کے بارے میں شفافیت کی کمی نے جنوبی کوریا کو ایک تاریخی موڑ پر پہنچا دیا ہے؛ یہ بحران ملکی اور علاقائی سیاست میں اہم تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں جنوبی کوریا میں سیاسی تناؤ میں شدید اضافہ ہوا، جو کہ یون سوک یول کی جانب سے عارضی طور پر مارشل لا کے اعلان سے عروج پر پہنچا، یہ اقدام 44 سالوں کے بعد پہلی بار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی کوریا کی تازہ ترین صورتحال؛اپوزیشن لیڈر کا انتباہ
یہ فیصلہ، جو کہ جمہوریت کے خطرات سے نمٹنے کے نام پر کیا گیا تھا، پارلیمنٹ اور عوام کی جانب سے شدید منفی ردعمل کا سامنا کر رہا ہے۔ 300
رکنی کورین پارلیمنٹ میں سے 190 ارکان نے صدر کے اس اقدام کو مسترد کیا، جس کے بعد اس فیصلے کی منسوخی کی درخواستیں بڑھ گئیں اور یون کے استعفے کی آوازیں سنائی دیں۔
آخرکار، جنوبی کوریا کے صدر نے 14 دسمبر کو پارلیمنٹ کے دوسرے استیضاح ووٹنگ میں عوامی حمایت کے بعد اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔
اس مؤاخذے کی قرارداد 204 ووٹوں سے منظور ہوئی، جبکہ 85 ارکان نے مخالفت کی، تین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور آٹھ ووٹ باطل قرار پائے۔
پہلے مؤاخذے کی تجویز جمعہ کو ناکام ہو گئی تھی کیونکہ اکثریتی پارٹی نے اسے مسترد کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اس تجویز کو 300 میں سے 200 ووٹ نہیں مل سکے لیکن اس بار تمام ارکان نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔
اب یون سوک یول کی صدراتی اختیارات معطل کر دیے گئے ہیں اور آئندہ 180 دنوں میں آئینی عدالت فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ دوبارہ صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے یا ان کی اختیارات واپس کر دیے جائیں گے، اگر وہ برطرف ہوتے ہیں تو 60 دنوں کے اندر نیا انتخاب منعقد کیا جائے گا۔
صدر کی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوششیں
بیشتر میڈیا نے یون کے مارشل لا کے اعلان کو ان کی طاقت مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا، جس سے ان کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچا اور مؤاخذے کی راہ ہموار ہوئی، یہ بحران جنوبی کوریا کی داخلی سیاست میں گہرے دراڑوں کو ظاہر کرتا ہے۔
ایشیا نیوز چینل (CNA) نے یون سوک یول کی عارضی مارشل لا کی پیشکش کو داخلی سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش قرار دی۔ اس میڈیا نے پارلیمنٹ اور شہری گروپوں کے اس فیصلے کی مخالفت اور اس کی جلد منسوخی کا ذکر کیا اور اس واقعے کو حکومت اور عوام کے درمیان گہری تقسیم کا مظہر قرار دیا۔
اقتدار پسند یون کی سرگرمیاں؛ عوامی بے اعتمادی سے عالمی سطح پر جنوبی کوریا کی ساکھ میں کمی
کوریا ٹائمز نے اس بحران کو حکومت کے اداروں پر عوامی بے اعتمادی کی نشاندہی کی اور یون کے اقتدار پسند اقدامات کو اس بحران کی شدت کی ایک وجہ قرار دیا۔
اس میں داخلی سیاست پر اس کے اثرات کو بیان کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اس بحران نے عالمی سطح پر جنوبی کوریا کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
ایشیا ٹائمز نے اس بحران کو ملک میں موجود عمیق نظریاتی اور سماجی دراڑوں کی عکاسی قرار دیا۔ اس نے کہا کہ یہ بحران عسکری طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچلنے کے سیاسی خطرات کو اجاگر کرتا ہے، جو جنوبی کوریا کے سفارتی تعلقات اور اس کے علاقے میں اثرات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔
سڑکوں پر مظاہرے اور یون کی اقتدار پسند پالیسیوں کے بارے میں خدشات
روئٹرز نے سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کی لہر اور یون کے اقتدار پسند رجحانات پر عوامی خدشات کی رپورٹ دی، اس میڈیا نے کہا کہ مارشل لا کے نفاذ کے فیصلے کے ساتھ ہی اس کے خلاف عوامی اور اپوزیشن ردعمل آیا، اس نے اس واقعے کو یون کی حکومت کی سیاسی استحکام کے لیے ایک دھچکہ اور ملک کی سیاسی عدم استحکام کا اشارہ قرار دیا۔
جنوبی کوریا کے داخلی بحران کا سئول کے امریکہ، چین اور جاپان کے ساتھ تعلقات پر اثرات
اسٹریٹجک اور بین الاقوامی مطالعاتی مرکز (CSIS) نے جنوبی کوریا میں مارشل لا کے اعلان کو ملک کی داخلی سیاست میں گہرے بحران کی علامت قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں صدر یون کی جانب سے شدید عوامی اور پارلیمانی ردعمل سامنے آیا۔
اس مرکز نے داخلی قوتوں کے استعمال کے خطرات پر بھی روشنی ڈالی، خاص طور پر اس بات کو اجاگر کیا کہ شمالی کوریا اس کمزوری کا فائدہ اٹھا سکتا تھا۔
اس بحران کا ماننا ہے کہ یہ جنوبی کوریا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، خصوصاً اس لیے کہ کلیدی اتحادی اس اقدام سے حیران رہ گئے تھے۔
اس امریکی تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ مارشل لا کا فیصلہ نہ صرف صدر کی عوامی حمایت کو کمزور کرتا ہے، بلکہ جنوبی کوریا اور امریکہ کے فوجی اتحاد کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے کیونکہ فوجی یونٹوں کو امریکی افواج کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر جزیرہ نما کوریا میں تعینات کیا گیا۔
کارنگی انسٹی ٹیوٹ نے اس اقدام کے طویل مدتی اثرات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اس بحران نے نہ صرف داخلی سطح پر جنوبی کوریا کی ساکھ کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کا عالمی سطح پر بھی اثر پڑا ہے۔
جنوبی کوریا جو خود کو دنیا بھر میں جمہوری اقدار کا محافظ سمجھتا تھا، اب اپنے اعتبار کے بحران کا شکار ہو چکا ہے، یہ بحران چین اور جاپان کے ساتھ جنوبی کوریا کے تعلقات میں بھی تبدیلی لا سکتا ہے، خاص طور پر اگر اگلا صدر مختلف پالیسی اختیار کرے۔
اس ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ یون کی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوششیں جنوبی کوریا کے امریکہ اور جاپان کے ساتھ تعلقات پر اضافی دباؤ ڈالیں گی کیونکہ اس کی کارروائیاں جمہوری اصولوں سے متصادم ہیں۔
جنوبی کوریا کی ترقی؛ جمہوریت کی استحکام یا شفافیت کی کمی؟
گی ووک شائن، اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے کوریا کے مطالعے کے پروفیسر نے اس بحران کو جنوبی کوریا کی جمہوریت کی استحکام کی علامت قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اور عوام کے فوری ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوری ادارے فعال ہیں، تاہم، انہوں نے صدر کی کمزور ہوتی عوامی حمایت اور استیضاح کی بڑھتی ہوئی درخواستوں کی طرف بھی اشارہ کیا۔
ان کے مطابق، یہ واقعات دنیا کی جمہوریتوں کو ایک انتباہ فراہم کرتے ہیں کہ یہ جمہوریت کا پسپائی کا خطرہ ہے۔
دوسری طرف، یوریشیا ریویو نے مارشل لا کے اعلان کو خودساختہ فوجی بغاوت قرار دیا اور اس کی شفافیت اور پارلیمنٹ و عوام کو مناسب اطلاع دینے کی کمی پر شدید تنقید کی۔
اس اقدام نے سرکاری ملازمین کے استعفوں کی ایک لہر اور داخلی شکافوں میں اضافے کو جنم دیا ہے، اس میڈیا نے بحران کے فوری اقتصادی اثرات کو اجاگر کیا، جن میں کرنسی کی قدر میں کمی اور مالیاتی منڈیاں شامل ہیں، ان کے مطابق، یون نے اس اقدام کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔
بی بی سی چینل نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ یون کا یہ اقدام نہ صرف ملک کے اندر ایک سنگین حکومتی غلطی کے طور پر دیکھا گیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں تشویش کا باعث بھی بن رہا ہے، اس میڈیا نے صدر کے استعفے یا مستعفی ہونے کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
بحران کا آئندہ انتخابات اور جنوبی کوریا کی سیاسی منظر نامے پر اثر
ہسپانوی جریدے ایل پائیس نے یون کے مارشل لا کے اعلان کو ایک خطرناک اقدام قرار دیا ہے جو عوامی دباؤ اور پارلیمنٹ کی مخالفت کی وجہ سے فوری طور پر منسوخ کر دیا گیا۔
اس یورپی میڈیا نے جنوبی کوریا کے آئندہ انتخابات اور سیاسی منظر نامے پر اس بحران کے ممکنہ اثرات پر زور دیا ہے، خاص طور پر جب یون استیضاح اور سیاسی حمایت میں کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
مجموعی طور پر، مشرقی ایشیا، یورپ اور امریکہ کے اہم میڈیا نے ان واقعات کو جنوبی کوریا کی داخلی سیاست میں گہری تقسیم اور شدید تناؤ کے طور پر پیش کیا ہے۔
مزید پڑھیں: جنوبی کوریا کے مستعفی وزیر دفاع کی خودکشی کرنے کی کوشش
ان تجزیوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یون کا مارشل لا کا فیصلہ نہ صرف داخلی سیاسی بحران کو بڑھا چکا ہے بلکہ جنوبی کوریا کی جمہوریت اور عالمی سطح پر اس کے تعلقات پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں، خاص طور پر امریکہ اور جاپان جیسے اتحادیوں کے ساتھ۔