سچ خبریں:صیہونی حکومت میں جیلوں کی تقسیم کا کوئی خاص قاعدہ اور قانون نہیں ہے جس کی وجہ سے فلسطینی قیدیوں کو مجرموں اور انتہائی یہودی مجرموں کے ساتھ والی کوٹھڑیوں میں قید کیا جا سکتا ہے جو اکثر ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
’’5 ہزار دن برزخ میں‘‘ کے عنوان سے تقریباً 200 صفحات پر مشتمل فلسطینی قیدی حسن سلامہ کی مرتب کردہ کتاب میں قابض حکومت کی جیلوں میں قید تنہائی میں ان کے غیر انسانی حالات کی کہانیاں ہیں، جن کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ صیہونی جیلیں مرنے والوں کی دنیا کے مترادف ہیں۔
حسن سلامہ کو 1996 میں عزالدین القسام بٹالین (حماس کی عسکری شاخ) کے کمانڈر یحییٰ عیاش کے قتل کے جواب میں شہادت طلبانہ کارروائی کی کمانڈ کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، صیہونی جیل میں انہوں نے یہ کتاب لکھی جس کے پہلے ابواب تنہائی میں قیدیوں کے عجیب اور پیچیدہ حالات کو بیان کرتے ہیں؛ 2 میٹر لمبائی اور ایک میٹر چوڑائی والے سیل جو ہر قسم کے کیڑے مکوڑوں اور اور پریشان کن جانوروں سے بھرے ہوتے ہیں جبکہ قیدی مسلسل رات کو صیہونی محافظوں کے حملوں کی زد میں رہتے ہیں،ایک کمانڈو آپریشن میں درجنوں صیہونیوں کو ہلاک اور زخمی کرنے والے حسن سلامہ نے خوب وضاحت کی کہ جیل میں تمام تر خوفناک پابندیوں کے باوجود انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور دشمن کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کیا،تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سابق سربراہ اور بیرون ملک اس تحریک کے رہنما خالد مشعل نے بھی اس کتاب کا مقدمہ لکھا ہے،اس کتاب کا ترجمہ اس کے مصنف کی زبان سے اقتباسات کی صورت میں خلاصہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ایالون کی قید تنہائی کے سلز
3 جولائی 1997 کو مجھے ایالون کے قید تنہائی کے سلز میں لایا گیا جو راملہ جیل کے ایک حصے میں واقع تھے جہاں جانے کے لیے ایک چھوٹا سا دروازہ لگا ہوا تھا ، انہوں نے مجھے کپڑوں کا ایک جوڑ دیا ، سب کچھ پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال دیا اور میری تلاشی لینے کے لیے مجھے مکمل طور برھنہ کیا، میں اس سارے وقت میں بالکل خاموش رہا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں، میں ان پولیس والوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو مسلسل اشتعال دلانے اور میرے اعصاب سے کھیلنے کی کوشش کر رہے تھے ، میں ان کی آنکھوں میں نفرت اور غصہ دیکھ رہا تھا، جب میں سیلوں میں داخل ہوا تو میں خود سے کہہ رہا کہ تم اپنی مدد آپ کرو،میں وہاں کچھ بھی نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی سن سکتا تھا، جو کچھ وہاں تھا وہ صرف دہشت تھی، مجھے نہیں معلوم، میں پہلے تھوڑا ڈر گیا تھا اور جب دروازہ بند ہوا تو یہ خوف اور بھی بڑھ گیا، یہ جیل کا پرانا حصہ تھا جس کی خستہ حال دیواریں، زنگ آلود پائپں اور آلودگی ہی دکھائی دے رہی تھی ،چاروں طرف بدبو پھیلی ہوئی تھی، میرا سیل نمبر 17 تھا جو اس حصے کے آخر میں واقع تھا، اس کے تمام دروازے بند تھے سوائے ایک چھوٹے سے روشندان کے جسے کھانا یا دوسری چیزیں دینے کے لیے کھولا اور فوراً بند کر دیا جاتا تھا،تمام سیلوں کے اندر کیمرے لگے ہوئے تھے اور قیدیوں کی تمام حرکات و سکنات پر نظر رکھی جاتی تھی۔ جب میں اپنے سیل میں داخل ہوا اور گارڈ نے دروازہ بند کیا،بھی مجھے شدید بھوک اور تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی قبر میں داخل ہوا ہوں، وہاں ایک پرانے اور پھٹے ہوئے قالین کے سوا کچھ نہیں تھا،سیل بہت گرم اور گندا تھا، ہوا کے اندر اور باہر جانے کا کوئی راستہ بھی نہیں تھا، اس لیے میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور سیل کو صاف کرنے کے لیے کچھ صابن مانکا، گارڈ نے سوچا کہ میں پینے کے لیے ٹھنڈا پانی چاہتا ہوں اور کہا کہ وہ مجھے پانی نہیں دے سکتا،مجھے بہت غصہ آیا اور گھٹن محسوس ہوئی،بہت تھک جانے کے باوجود میں نے سیل کی صفائی شروع کردی،گرمی کی وجہ سے میں نے اپنے کپڑے اتار لیے،وہ لمحات میرے ذہن میں ہیں اور یہ میرے گزارے ہوئے بدترین لمحات تھے، مجھے لگا جیسے زندگی حقیقت میں ختم ہو گئی ہے ، مجھے بہت شور سنائی دے رہا تھا لیکن نہیں معلوم کہ وہ کہاں سے آ رہا تھا، میں یہاں پر اکیلا مجاہد قیدی تھا ، میرے اردگرد تمام قیدی مجرم یہودی اور عرب تھے جن پر خطرناک مقدمات تھے ،وہ پاگلوں کی طرح نظر آتے تھے ، یہ تمام لوگ نشے کے عادی تھے، دن رات دروازے کھٹکھٹاتے تھے ، ان کی پریشانیاں ختم ہونے والی نہیں تھیں ،وہ ایک دوسرے کو نازیبا الفاظ سے پکارتے رہے، ان کا کوئی بھی رویہ عام انسانوں جیسا نہیں تھا، میں ان کے درمیان اس ڈوبنے والے کی طرح تھا جو مدد کے لیے چیخ رہا ہو، گارڈ ہر 15 منٹ بعد آتا تھا ایک نظر مجھ پر ڈالتا تھا اور کچھ کہے بغیر چلا جاتا تھا۔
خوفناک ظلم و ستم
یہاں کا انچارج یورم نامی نسل پرست یہودی افسر تھا، جس نے بہت برا سلوک کیا۔ گارڈز مجھے ہراساں کرنے کے لیے دن یا رات میں کسی بھی وقت میرے سیل پر حملہ کرتے،میں خاص طور پر رات کو بہت غیر محفوط تھا ، ان کا اشتعال انگیز رویہ جاری رہتا تھا لیکن اس سب کے باوجود مجھے اپنے اعصاب پر قابو رکھنا تھا اس لیے کہ میری چھوٹی سی غلطی بھی میری زندگی کے لیے منفی نتائج کی حامل ہو سکتی تھی اور مجھے مزید حملوں اور اذیتوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، گارڈز میرے ہاتھ پیر باندھ دیتے ، صرف ایک گھنٹے کے لیے صحن میں جانے کی اجازت ملتی، میں نے اس موقع کو ورزش کے لیے استعمال کیا، خاص طور پر صبح کے وقت، جب وہ مجھے صحن میں جانے کو کہتے تو میں بہت تیزی سے تیار ہو جاتا لیکن فوراً وارڈ منیجر اور گارڈز آتے اور میرے ہاتھ پیر باندھ کر تلاشی لینے کے لیے سیل میں داخل ہوجاتے ، وہاں سے کچھ نہ ملنے کے باوجود یہ کام روز دو بار دہرایا جاتا، یہ سلوک جیل کے ضلعی کمانڈر کے حکم کے مطابق کیا جاتا تھا، سال بھر میری ساتھ یہی چلتا رہا، جب مجھے آرام کرنے کے لیے جیل کے سائیڈ یارڈ میں لے جایا جاتا تو میرے ہاتھ پیر بندھے ہوتے تھے ، میں انتظار کرتا کہ کوئی افسر آئے اور مجھے سیل میں لے جائے،پورے صحن میں کیمرے لگے ہوئے تھے، اگر میں نے اپنے ہاتھ پیر کھولنے یا کچھ ورزش کرنے کی کوشش کرتا تو جیل حکام جوتوں اور بھاری اوزاروں سے مجھ پر ٹوٹ پڑتے، میرے پیروں میں لوہے کی زنجیر باندھی ہوئی تھی جس سے میں مشکل سے چل سکتا تھا، میں اسی حالت میں ورزش کرنے کی کوشش کرتا تو ظاہر ہے کبھی کبھی زمین پر گر جاتا تھا، لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرے پاس ایک عظیم ارادہ ہے اور میں نے ان تمام اذیتوں کے ساتھ مضبوط رہنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جب محافظ مجھے واپس کوٹھڑی میں لے جانے کے لیے آئے تو حیران ہوتے اور پوچھتے کہ تم ان حالات میں کس طرح ورزش کرتے ہو اور وہ ڈر جاتے کہ میں اپنے ہاتھ پاؤں کی زنجیریں کھول لوں گا لہذا وہ دوبارہ میری تلاشی لیتے، میں ان پر ہنستا بلکہ حقیقت میں اپنے آپ پر ہنستا ، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں اس حالت میں کس طرح ورزش کرتا ہوں اور جب میں اپنے سیل پر پہنچتا تو میری ٹانگوں سے خون بہہ رہا ہوتا، لیکن میں پھر بھی اپنا کام جاری رکھتا۔
بھوک ہڑتال
سیل کے حالات جو میں نے بیان کیے ہیں ان کے باوجود مجھے وہاں دن رات میں 23 گھنٹے برداشت کرنا پڑتا تھا، میں نے ہمیشہ اسے ہر ممکن حد تک صاف رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود وہاں موجود چیزوں نے مجھے مسلسل پریشان کیا، خاص طور پر ہر قسم کے کیڑوں کی موجودگی،کاکروچ اس سیل کے اصل باشندے تھے جو ہر جگہ نظر آتے تھے، ان میں سے بہت سارے ایسے تھے کہ میں ان سے چھٹکارا نہیں پا سکتا تھا۔ میرے پاس ان کاکروچوں سے چھٹکارا پانے میں کام آنے والی کوئی چیز نہیں تھی، صورت حال اسی طرح چلتی رہی اور کاکروچوں نے میرے جسم کو اپنے گزرنے کے لیے ایک پل بنا رکھا تھا اور مجھے یہ ماننا پڑا کہ وہ یہاں میرے ساتھی ہیں،اس کے بعد چھوٹی اور بڑی شہد کی مکھیاں بھی ملیں، لیکن جو کیڑے مجھے سب سے زیادہ پریشان کرتے تھے وہ مکھیاں تھیں، جن سے میں بہت نفرت کرتا تھا اور انہیں سختی سے بھگا دیتا تھا،مکھیاں ایک ساتھ مل کر مجھ پر دھاوا بول دیتیں لیکن پھر بھی میں ہمت نہیں ہارتا اور ان سے لڑتا رہتا،دوسرے کیڑے مکوڑے بھی تھے جو کبھی کبھی مجھ سے ملنے آتے اور پھر چلے جاتے، لیکن سیل کے سب سے خطرناک باشندے وہ چوہے تھے جو مجھے اپنی آوازوں سے جگا دیتے تھے، یہ مخلوق دراصل سیل میں میری ساتھی تھی ، تھوڑی دیر بعد مجھے لگنے لگا کہ اب مجھے ان کی موجودگی سے کوئی پریشانی نہیں ہے، میری صورتحال ایسی ہی رہی یہاں تک کچھ عرصے بعد مجھے بھوک ہڑتال کے علاوہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا اور میں غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال پ بیٹھ گیا،اس دوران "منڈیلا” انسٹی ٹیوٹ کی وکیل مسز ” بثینه دقماق ” مجھ سے ملنے آئیں ،انہوں نے میری بہت مدد کی،جب وہ مجھ سے ملنےآئیں تو میں بھوک ہڑتال شروع کر چکا تھا ، اس کی وجہ سے گارڈز نے میرا سارا سامان چھین لیا اور مجھے سیل سے باہر جانے نہیں دیا،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھوک ہڑتال ایک آسان اور سادہ عمل ہے ،وہ بہت غلط سوچ رہے ہیں، اس لیے کہ بھوک ہڑتال میں مجھے جو تجربہ ہوا اس کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس عمل کا مطلب قیدی کی حقیقی موت ہے خاص طور پر اس قابل رحم صورتحال میں جس میں میں تھا اور کوئی مدد نہیں تھی،بھوک ہڑتال میں شامل ہونے کے لیے میرے ساتھ دیگر قیدی بھی نہیں تھے، نہ اس خبر کو کور کرنے کے لیے کوئی میڈیا موجود تھا اور نہ ہی میرے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کوئی اور تھا، اگر حالات کچھ بہتر ہوتے تو میرے لیے بھوک ہڑتال برداشت کرنا آسان ہو جاتا اور وقت تیزی سے گزرتا، میں نے یہ جان کر بھوک ہڑتال شروع کی کہ مجھے یہ اکیلے کرنا ہے اور اس کی ذمہ داری لینا ہے، مجھے ایسا کرنا پڑا اس لیے کہ میرے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا،خدا کا شکر ہے، میں اس بھوک ہڑتال کے دوران اپنی روح اور روحانی قوت کو بڑھانے میں کامیاب رہا، اور یہ میرے لیے وزن کم کرنے کا موقع بھی تھا، اس دوران جیل کے بہت سے اہلکار آئے اور مجھے دھمکیاں دیں ، کچھ نے مشورے بھی دیے لیکن ان میں سے کوئی بھی میرا سامان واپس کرنے یا ہاتھ پیر کھولنے کو تیار نہیں تھا،میں نے 16 دن بھوک ہڑتال جاری رکھی اور 16 ویں دن عسقلان جیل کے ڈائریکٹر کو اس جیل کے قیدیوں کے دباؤ میں آکر میرے سیل کے اہلکاروں سے تشدد کم کرنے کے لیے کہنا پڑا،وہ جو صہیونی جیل انتظامیہ میں اعلیٰ سکورٹی کمیٹی کے رکن تھا اور قید تنہائی میں قید قیدیوں کے کیس کے ذمہ دار تھا، میرے سیل میں آیا ، بھوک ہڑتال کے اثرات میرے چہرے اور جسم پر پوری طرح نظر آنے لگے، میں بہت دبلا ہو گیا تھا،ہم نے بات کی اور میں نے اپنی درخواستیں بیان کیں ، میں جانتا تھا کہ وہ انتہائی برے لوگوں میں سے ایک ہے اور قیدیوں کے خلاف ہونے والے تمام تشدد اور جرائم کا براہ راست ذمہ دار ہے، وہ عربی اچھی طرح جانتا تھا ، کہنے لگا تم اپنی اس حالت کے خود ذمہ دار ہو، عسقلان جیل کے ڈائریکٹر نے مجھ سے بھوک ہڑتال ختم کرنے کو کہا اور وعدہ کیا کہ وہ میری مدد کرنے کی کوشش کریں گے لیکن میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے آپ پر بھروسہ نہیں ہے اور جب تک میرے تمام مطالبات پورے نہیں ہو جاتے میں ہڑتال ختم نہیں کروں گا، اس لیے جیل حکام کو میرا سامان واپس کرنا پڑا اور مجھے پنکھا، ٹی وی، ریڈیو وغیرہ کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کے برتن بھی دیے، میں نے کامیابی محسوس کی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ میری بھوک ہڑتال رائیگاں نہیں گئی، اس عرصے کے دوران میرے لیے یہ لمحات سب سے خوبصورت تھے جنہوں نے میری خود اعتمادی کو بڑھایا اور میرے ارادوں کو مضبوط کیا،اس کے بعد سیل میں میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔