2023 میں خلیج فارس کی جغرافیائی سیاست کس سمت جائے گی؟

بحرین

🗓️

سچ خبریں:متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے برعکس 2022 میں بحرین کی طرف سے بہت زیادہ نقل و حرکت نظر نہیں آئی، بحرینیوں نے قطر سے نزدیک ہونے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اس لیے توقع ہے کہ 2023 میں بھی بحرین خلیج فارس تعاون کونسل میں معمولی کردار ادا کرتا رہے گا۔

سال 2022 خلیج فارس کے عرب ممالک کے لیے عالمی سطح پر اداکاری میں اضافے کا سال تھا،جہاں امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر مغربی رہنما تیل اور توانائی کی فراہمی کے لیے سعودی عرب کے ولی عہد اور شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف دیکھ رہے تھے، وہیں یوکرین کی جنگ کی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک کو توانائی کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ، یہ صورتحال توانائی کی فراہمی کے لیے مغربی ایشیا کی جانب مغرب کی خصوصی توجہ کا باعث بنی، اسی دوران چینی صدر شی جن پنگ کے 2023 کے پہلے دنوں میں ریاض کے دورے اور اوپیک + کی پیداوار میں کمی سمیت توانائی کی پالیسیوں کے شعبے میں سعودی عرب اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون نے یہ ظاہر کیا کہ ریاض خود کو واشنگٹن سے دور کرنا چاہتا ہے۔

خلیج فارس تعاون کونسل میں بحرین کی مسلسل گوشہ نشینی
2022 میں قطر کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی جب کہ قطر 2017 سے خلیج فقر تعاون کونسل میں اپنے پڑوسیوں کے محاصرے میں تھا،تاہم 2022 ریاض اور ابوظہبی کے ساتھ قطر کی مکمل مفاہمت کا سال تھا،ساتھ ہی 2022 میں ہمیں بحرین کی طرف سے بہت زیادہ نقل و حرکت نظر نہیں آئی اس لیے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے برعکس 2022 میں بحرین کی طرف سے بہت زیادہ نقل و حرکت نظر نہیں آئی، بحرینیوں نے قطر سے نزدیک ہونے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اس لیے توقع ہے کہ 2023 میں یہ ملک خلیج فارس تعاون کونسل میں معمولی کردار ادا کرتا رہے گا اور اس کونسل کے سفارتی عمل میں کم ہی حصہ لے گا، اس بات کے کوئی آثار نہیں ہیں کہ بحرین 2023 میں زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے کی طرف بڑھے گا۔

قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران بھی اس حقیقت کے باوجود کہ دوحہ نے متحدہ عرب امارات کے صدر اور سعودی عرب کے ولی عہد کی میزبانی کی، بحرین کے اعلیٰ عہدے داروں میں سے کسی نے بھی اس تقریب میں شرکت نہیں کی یہاں تک کہ جب دبئی اور ریاض کے بہت سے ہوٹلوں نے بھی قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکاء اور سیاحوں کی میزبانی کی، بحرین اپنے دوسرے عرب پڑوسیوں کے مقابلے قطر میں ہونے والے بین الاقوامی کھیلوں کے ایونٹ سے دور ہی رہا جس کی وجہ تعلقات کی سرد مہری بھی ہو سکتی ہے، نئی عرب رپورٹس کے مطابق ممکنہ طور پر کویت خلیج فارس تعاون کونسل کے ایک اور رکن کی حیثیت سے نئے سال میں خطے میں ایک غیر جانبدار اور ثالثی کرنے والے ملک کے طور پر اپنا روایتی کردار جاری رکھے گا اور قطر بھی بین الاقوامی تقریبات کی میزبانی کے بارے میں سوچ سکتا ہے نیز یہ بھی امکان ہے کہ قطر 2036 کے سمر اولمپکس کی میزبانی پر غور کرے گا۔

یمن میں جنگ کی برزخ
یمن کی جنگ مغربی ایشیا کا ایک اور سیاسی معاملہ ہے جسے رواں سال میں9 سال ہو جائیں گے،تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران یمن میں نہ تو جنگ ہے اور نہ ہی امن اس لیے کہ سعودی عرب کی جانب سے کیے جانے والے وقفے وقفے سے حملوں کی وجہ سے اس صورتحال کو جنگ بندی نہیں کہا جا سکتا، تاہم، سکیورٹی کے نقطہ نظر سے 2023 میں اس ملک میں اس ملک میں نہ جنگ نہ امن کی صورتحال کا خاتمہ ممکن ہے ، اس صورت حال کے جاری رہنے کی کئی وجوہات ہیں: ایک طرف تو مغربی اتحادی حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی سعودی عرب پر جنگ بند کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے اور دوسری طرف مغرب میں توانائی کے بحران نے یمنیوں کی انسانی صورت حال کو سنگین بنا دیا ہے اس لیے جنگ کے مارے ہوئے یمنی لوگ مغرب کی ترجیح نہیں ، دوسری جانب سعودی عرب یمن کے خلاف بھرپور جنگ اور مسلسل حملے کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ یمنی عوام سعودیوں اور اماراتیوں کو بیلسٹک میزائلوں سے جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے کہ اس سے قبل انہوں نے دبئی کے ہوائی اڈے اور جدہ میں تیل تنصیبات پر حملے کر کے انہوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے اس لیے یمن کی موجودہ غیر مستحکم صورت حال کا تسلسل 2023 میں اس جنگ زدہ ملک میں سب سے زیادہ ممکنہ صورت حال ہو گا، انصار اللہ ممکنہ طور پر صنعاء پر تسلط برقرار رکھے گی جب کہ عدن میں مغربی اور سعودی حمایت یافتہ حکومت صنعاء کے خلاف داخلی اتحاد قائم نہیں کر سکے گی، یونیورسٹی آف اوٹاوا کے شعبہ بین الاقوامی مطالعہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کہتے ہیں کہ یمن میں سعودی حمایت یافتہ افواج کی صنعاء کے خلاف مشترکہ محاذ بنانے میں ناکامی یمن میں موجودہ نہ جنگ نہ امن کی صورتحال کے جاری رہنے کی ایک اہم ترین وجہ ہے۔

ابراہیم معاہدون کی ناکامی۔
2023 میں عربوں اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل سب سے بڑھ کر تل ابیب کی اقتدار میں آنے والے انتہاپسند کی کارکردگی پر منحصر ہے،اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ تل ابیب میں حکمرانی کرنے والے انتہا پسندوں نے فلسطین کی سرحدوں سے باہر کے عربوں کے بجائے فلسطین کے اندر کے عربوں کو ترجیح دی ہے لہذا یہ امید کرنا مشکل ہے کہ 2023 کچھ عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کا موقع ہو گا اس لیے کہ اس وقت تل ابیب کے حکمراں تنہاپسندانہ سوچ رکھتے ہیں اور ان کے لیے خارجہ پالیسی سے پہلے ملکی پالیسی آتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس وقت تل ابیب میں غالب آ رہے مذہبی صہیونیوں کے تیز اور انتہائی سخت اقدامات غالباً مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کچھ تناؤ کا باعث بنیں گے، گزشتہ ماہ یورپی یونین کی بین الاقوامی پولیس نے انتہا پسندوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کو معطل اور عارضی طور پر روک دیا تھا،دوسری طرف تل ابیب اور بعض عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک اہم محرک ٹرمپ کی صدارت میں اس وقت کی امریکی حکومت کا اصرار تھا لہٰذا تل ابیب کے ساتھ مغربی ممالک اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کی صورت میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ بعض عرب ممالک اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوئی محرک پیدا ہو گا جبکہ کہ تل ابیب میں بن گوئر جیسے لوگ مغربی کنارے پر مکمل قبضے کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس صورت میں مغربی کنارے پر قبضہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان تناؤ کا امکان بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں، تل ابیب میں انتہا پسندوں کے دور میں عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کا امکان ناممکن ہو جائے گا۔

یوکرین جنگ کے طویل مدتی اثرات
یوکرین روس کی جنگ عالمی معاملات میں ایک بڑا چیلنج ہے جس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں محسوس کیے جا رہے ہیں،اس جنگ کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ہی قحط، خوراک اور توانائی کی آسمان چھوتی قیمتیں، قرضوں جیسے تمام عالمی مسائل میں اضافہ مزید سنگین ہوگیا اور اس صورتحال نے عالمی معیشت کے لیے منفی نقطہ نظر ایجاد کیا، دوسری جانب خلیج فارس تعاون کونسل کے ممالک کے لیے عالمی غذائی تحفظ کے خطرات بہت زیادہ ہیں نیز خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ان ممالک کے علاقائی اور بین الاقوامی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے، مصر، لبنان، اردن، صومالیہ اور سوڈان جیسے عرب/افریقی ممالک کو غذائی تحفظ کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جو ممکنہ طور پر GCC ممالک کو اس بحران میں ان کی مدد کرنے پر مجبور کریں گے۔

ایک علاقائی ماہر کا کہنا ہے کہ اس بات کی کئی وجوہات ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ 2008 میں خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ شام، لیبیا اور تیونس میں سیاسی عدم استحکام کا ایک موثر عنصر یا سبب تھا اور اگر 2023 میں بھی غذائی عدم تحفظ برقرار رہتا ہے، تو اس کے نتیجے میں خطے کے ممالک کے درمیان کچھ سیاسی محرکات دیکھنے کو مل سکتے ہیں نیز خلیج فارس تعاون کونسل کے ممالک کے لیے عالمی غذائی تحفظ کے خطرات بہت زیادہ ہیں اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ان ممالک کے علاقائی اور بین الاقوامی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے۔

مشہور خبریں۔

پاکستان، آئی ایم ایف کے درمیان نئے قرض پروگرام پر مذاکرات کا شیڈول طے پاگیا

🗓️ 1 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان کی جانب سے 3 ارب ڈالرز کا

پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر حملہ ایک جیسا ہے تو پھر تفریق کیوں؟ جسٹس مندوخیل

🗓️ 3 فروری 2025 اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ

ایران ہمیں چھوٹا اور امریکہ کو بڑا شیطان سمجھتا ہے: نیتن یاہو

🗓️ 5 مئی 2023سچ خبریں:صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطین کا

ترین گروپ کو منانے کے لیے حکومت کی کوششیں تیز

🗓️ 23 مارچ 2022 لاہور(سچ خبریں)حکومت نے پنجاب میں وزیر اعلی کے خلاف تحریک عدم

امریکی ایوان نمائندگان بھی یوکرینی عام شہریوں کے قتل عام میں شریک

🗓️ 14 جولائی 2023سچ خبریں: امریکی ایوان نمائندگان نے یوکرین کو کلسٹر بم بھیجنے پر

اردن اور امریکی وزرائے خارجہ نے قدس میں تاریخی جمود کو برقرار رکھنے پر زور دیا

🗓️ 20 اپریل 2022سچ خبریں:  اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفدی اور ان کے امریکی ہم

نائجر میں فرانس کو ذلت کا سامنا

🗓️ 26 ستمبر 2023سچ خبریں: افریقی براعظم کے سیاسی تجزیہ کار فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون

کیف کی کارروائی یورپ میں انسانی تباہی کا باعث

🗓️ 18 اگست 2024سچ خبریں: روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے اقوام متحدہ اور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے