سچ خبریں:عرب دنیا کے اسٹریٹجک مسائل کے تجزیہ کار نے یمن میں آٹھ سالہ فوجی جارحیت کے اہداف کے حصول میں سعودی عرب کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کا بحران سیاسی حل کے ذریعے ہی ختم ہوگا۔
برسینزا نیوز سائٹ کی رپورٹ کے مطابق عرب دنیا کے اسٹریٹجک مسائل کے تجزیہ کار شروتی پونیا نے کہا کہ یمن کا بحران سیاسی حل کے ذریعے ہی ختم ہو گا اور یہی حل سعودی عرب کے حق میں ہے کیونکہ وہ اپنے تزویراتی اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے،انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ مغربی ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر خریداری سے سعودی عرب کی فوجی برتری کے باوجود وہ یمن کے خلاف آٹھ سالہ غیر مساوی جنگ کو نہیں جیت سکتا ، مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یمن کے بحران میں سب کچھ ایک اہم موڑ پر پہنچ رہا ہے۔
عرب دنیا کے اسٹریٹجک مسائل کے اس تجزیہ کار کے مطابق سعودی عرب یمن میں جارحیت کے اپنے اہم مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کر پا رہا ہے، یعنی نہ ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کر سکا ہے،نہ اس ملک اپنی کٹھ پتلی حکومت کی بقا کو یقینی بناسکا ہے، نہ یمن کے دارالحکومت صنعا سے انصار اللہ کو بے دخل کر سکا ہے اور نہ ہی اپنی سرحدوں کے قریب ایک نئے مزاحمتی گروپ کی تشکیل کو روک سکا ہے،پنیا نے مزید کہا کہ تمام علاقائی اور غیر ملکی اداکاروں کو یمن میں فوجی تنازعہ کے خاتمے کے لیے پرامن حل تلاش کرنا چاہیے، جس نے پچھلی دہائی میں سب سے زیادہ پرتشدد انسانی بحران پیدا کیا ہے اور اس مک میں بڑے پیمانے پر قحط، ہیضہ جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ اور تباہی پھیلانے کا سبب بنا ہے۔
عرب دنیا کے اسٹریٹجک مسائل کے اس تجزیہ کار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب سے سعودی عرب واحد قابل اعتماد ثالث عمان کی طرف دیکھ سکتا ہے اور مسقط کی مدد سے اس دلدل سے نکلنے کے لیے مستقل حل تلاش کر سکتا ہے،انہوں نے خطے میں ریاض کی نسبتاً کمزور پوزیشن کی تصدیق کرتے ہوئے جنگ کے معاشی اخراجات کو بچانے اور خطے میں ریاض کی باقی ماندہ ساکھ اور وقار کو برقرار رکھنے خاص طور پر سعودی عرب پر یمن کی فوج کی نیشنل سالویشن حکومت کے حملوں نے اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو ظاہر کیا ہے، دوسری چیزوں کے علاوہ سعودی عرب کے لیے یمن کے بحران کے پرامن حل کے مثبت نتائج قرار دیا،آخر میں پونیا نے نتیجہ اخذ کیا کہ یمن کے خلاف جنگ سے سیکھنے والا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے حصول پر ضرورت سے زیادہ اصرار شہریوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جنگی جرائم کا باعث بن سکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ مزاحمت کرنے والے مخالف کو شکست دینا کافی نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یمن میں جنگ بندی، جس کی جارح سعودی اتحاد کی جانب سے بارہا خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے، اقوام متحدہ کی مشاورت سے اس میں ایک بار کی جانے والی توسیع کے بعد 2 ماہ کی مزید توسیع 2 اگست کو ختم ہوئی جسے دوبارہ بڑھا کر2 اکتوبر کو ختم کر دیا گیا،یاد رہے کہ قبل ازیں یمن کے نائب وزیر اعظم برائے دفاع و سلامتی میجر جنرل جلال الروئیشان نے کہا کہ نہ تو امن اور نہ ہی جنگ کی صورت حال خطرے کی گھنٹی ہے اور ہم اپنی قوم اور حکام کے اتحاد پر بھروسہ کرتے ہیں،نیز یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے کہا کہ سعودی اتحاد کی جانب سے بار بار کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے یمن میں جنگ بندی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے امریکہ کی مدد اور سبز روشنی نیز صیہونی حکومت کی حمایت سے متحدہ عرب امارات سمیت متعدد عرب ممالک کے اتحاد کی صورت میں غریب ترین عرب ملک یمن کے خلاف26 مارچ2015 کو بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیے، تاہم یمن پر یلغار کرنے اور ہزاروں لوگوں کو ہلاک کرنے نیز اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے 7 سال بعد بھی یہ ممالک نہ صرف اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے بلکہ ان ممالک کے اندر یمنی مسلح افواج کے میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔