?️
سچ خبریں: یمن کی قومی خودمختاری کو پامال کرنے والے ایک غیر قانونی اقدام میں امریکہ اور برطانیہ نے اس ملک کے خلاف زبردست حملے کیے جس کے نتیجے میں درجنوں شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ یمنی حکام نے اس جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے فیصلہ کن جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے خلاف کارروائی میں امریکہ اور برطانیہ نے یمن کی سرزمین پر وسیع فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ یہ کارروائی ان کے براہ راست حکم سے اور فیصلہ کن اور طاقتور کارروائی کے مقصد سے کی گئی ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ سینٹ کام نے بھی ان حملوں کو یمن میں فوجی کارروائیوں کے سلسلے کا آغاز قرار دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ واشنگٹن بحیرہ احمر میں امریکی افواج اور تجارتی بحری جہازوں پر انصار اللہ تحریک کے حملوں کو مزید برداشت نہیں کرے گا۔
اس کے مقابلے میں یمن کا ردعمل فوری اور فیصلہ کن تھا۔ المیادین ٹی وی نے صنعاء میں اپنے نامہ نگار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یمنی فوج اس جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی تیاری کر رہی ہے۔ ایک سرکاری بیان میں یمنی علماء اسمبلی نے ان حملوں کا مقابلہ کرنا ایک دینی اور مذہبی فریضہ سمجھا۔ انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے ایک رکن نے قطر کے عرب نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے تاکید کی کہ یہ جارحیت لا جواب نہیں رہے گی۔ Axios ویب سائٹ نے بھی امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ یہ حملے طویل مدتی فوجی منصوبے کا صرف پہلا قدم ہیں۔
انصار اللہ کے خلاف جھوٹا دعویٰ
امریکہ اور برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے صرف اور صرف انصار اللہ کے خلاف کیے گئے تھے، جسے وہ دہشت گرد گروپ کہتے ہیں۔ لیکن انصار اللہ یمن کے سیاسی اور دفاعی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ ہے اور اقوام متحدہ اس تحریک کو مذاکرات میں یمنی حکومت کا سرکاری نمائندہ تسلیم کرتی ہے۔ اس جارحیت پر یمنی فوج، علمائے کرام، قبائلی رہنماؤں اور سیاسی دھارے کا مربوط ردعمل اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔ مزید برآں، رپورٹس بتاتی ہیں کہ ان حملوں کے زیادہ تر متاثرین عام شہری ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، ان دعوؤں پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں کہ فوجی اڈوں یا میزائل سسٹم کو نشانہ بنایا گیا اور اس جرم کے خلاف عالمی ردعمل کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
ناکام تجربے کو دہرانا
اس آپریشن سے ٹرمپ فوجی اختیار دکھانے اور ایران، روس اور چین جیسے حریفوں کو پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، تاریخ بتاتی ہے کہ یمن میں سابقہ امریکی اور برطانوی جارحیت، بشمول جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ سالہا سال کے حملوں کا نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ ان دونوں ممالک کے حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے مہنگے میزائل یمن کے سستے ڈرونز پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔ بحیرہ احمر میں یمنی کارروائیوں کا خاتمہ فوجی دباؤ سے نہیں بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے قیام سے ہوا تھا۔ یہ نئی کارروائی بھی اسی غیر موثر حکمت عملی کا اعادہ ہے اور اس سے حملہ آوروں کو سوائے ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ خاص طور پر چونکہ سعودی عرب سمیت امریکہ کے علاقائی اتحادیوں نے اس آپریشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔
میری ٹائم سیکورٹی کا بہانہ اور میدان کی حقیقت
ٹرمپ بحری تجارت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان حملوں کا جواز پیش کرتے ہیں، لیکن گزشتہ 16 ماہ کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیرہ احمر کی سلامتی صیہونی حکومت کے قبضے سے قائم ہوتی ہے نہ کہ تنازعات کو بڑھا کر۔ یمن نے شروع سے اعلان کیا ہے کہ بحیرہ احمر میں اس کی کارروائی صرف فلسطین کی حمایت اور غزہ کی ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے ہے اور وہ صرف اسرائیل سے متعلق جہازوں کو نشانہ بناتا ہے۔ انصار اللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام نے بھی اس بات پر زور دیا کہ یمن سے بین الاقوامی جہاز رانی کو دھمکی دینے کا دعویٰ غلط ہے اور اس کا مقصد صرف اسرائیل پر غزہ کی ناکہ بندی ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ ان حملوں سے نہ صرف سیکیورٹی میں مدد ملے گی بلکہ بحیرہ احمر کی عسکری کاری سے عالمی تجارت کو شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صیہونیوں کی حمایت میں ناکامی
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی صیہونی حکومت کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی تھی لیکن اس کارروائی سے نہ صرف اپنا مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ یمن اور فلسطین کی مزاحمت میں شدت پیدا کرکے اسرائیل کے لیے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ یمن نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم ہونے تک فلسطین کی حمایت جاری رکھے گا۔ حزام الاسد جو کہ انصار اللہ کے رہنماؤں میں سے ایک ہے اور یمن کی سپریم سیاسی کونسل نے بھی اس موقف پر تاکید کی ہے۔ حتیٰ کہ یدیعوت احرنوت جیسے صہیونی میڈیا نے خبردار کیا ہے کہ یہ جارحیت مقبوضہ علاقوں پر یمنی میزائل حملے دوبارہ شروع کر دے گی۔
ایرانوفوبک پالیسی کا تسلسل
اپنے پیشروؤں کے طرز عمل کے بعد ٹرمپ نے ایران پر یمن کی حمایت کا الزام لگایا اور تہران کے خلاف انتباہ جاری کیا۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسٹ نے بھی دعویٰ کیا کہ یمن میں حملے ایران کی حمایت سے ہوتے ہیں۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ایران نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ اسے مزاحمت کی حمایت کرنے پر فخر ہے، لیکن علاقائی گروپ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ الزامات درست ہونے کی بجائے یمن میں ممکنہ ناکامی اور ایران پر زیادہ سے زیادہ پالیسیوں کے مطابق دباؤ ڈالنے کی کوشش لگتے ہیں۔ ایک ایسی پالیسی جو بار بار اپنی نا اہلی دکھاتی رہی ہے۔
جارحوں کا ناگزیر انجام
یمن کے خلاف جارحیت امریکہ اور برطانیہ کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا دے گی جو انہیں صرف ناکامی اور سکینڈل کا باعث بنے گی۔ یمنی مزاحمت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ دباؤ میں نہیں آئے گی، لیکن اس سے اسلامی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی یمن کی حمایت اور امریکہ کی یکطرفہ پسندی کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری کی نفی نہیں ہوتی۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
کرم ایجنسی میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں شہادتیں 42 ہوگئیں
?️ 22 نومبر 2024 پاراچنار: (سچ خبریں) خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جمعرات کے
نومبر
اسرائیل پر حملوں کے باوجود امریکہ یمن کے ساتھ جنگ بندی پر قائم:امریکی عہدیدار
?️ 17 مئی 2025 سچ خبریں:امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ اور یمن جنگ
مئی
الکاظمی اپنے تحفظ کے لیے امریکی سفارت خانے گئے ہیں:عراقی سیاست دان
?️ 4 جنوری 2023سچ خبریں:ایک عراقی سیاست دان نے اس ملک کے سابق وزیر اعظم
جنوری
7اکتوبر کے بعد سے عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر کیا بیت رہی ہے؟
?️ 3 جنوری 2024سچ خبریں: ایک امریکی فوجی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ 17 اکتوبر
جنوری
چوٹہ بازار قتل عام کے شہداء کو ان کے یوم شہادت پرشاندار خراج عقیدت
?️ 11 جون 2025سرینگر: (سچ خبریں) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی
جون
سپریم کورٹ نے عدالتی معاملات میں ’ایجنسیوں‘ کی مداخلت سے متعلق درخواستیں یکجا کردیں
?️ 27 اپریل 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ نے عدالتی معاملات میں ’انٹیلی جنس
اپریل
متحدہ عرب امارات میں ایک اسرائیلی ربی لاپتہ
?️ 24 نومبر 2024سچ خبریں: صہیونی اخبار Yediot Aharonot نے دعویٰ کیا ہے کہ متحدہ
نومبر
کیا غزہ میں جنگ بندی ہو سکتی ہے؟ امریکہ کیا کہتا ہے؟
?️ 5 نومبر 2023سچ خبریں: امریکہ کے صدر نے اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی
نومبر