سچ خبریں:یمن پر سعودی اتحاد کے حملے کو تقریباً 8 سال گزر جانے کے بعد یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ شروع میں اس اتحاد کے اہداف کیا تھے اور آج ان میں سے کون سے مقاصد پورے ہو چکے ہیں؟
26 مارچ 2015 کو سعودی عرب نے عرب ممالک کے اتحاد کی تشکیل کے ساتھ اس ملک کے مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہوئے یمنی عوام کے خلاف اپنے فضائی حملے شروع کیے، اس آپریشن میں جسے پہلے مہینے میں عزم کا طوفان اور پھر امید کی واپسی کا نام دیا گیا، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت سعودی اتحاد میں شامل ہوئے جبکہ سوڈان، مصر اور اردن جیسے ممالک نے بھی اسلحے کی ترسیل کے ذریعہ ان حملوں میں حصہ لیا اور ریاض کے ساتھ تعاون کیا۔
اب جب کہ بحران کے آغاز کو تقریباً ایک دہائی گزر چکی ہے، ان دو اہم سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے۔
1۔ یمن پر فوجی حملے کے سعودی عرب اور اس کے اتحاد کے اصل اہداف اور وجوہات کیا تھیںْ
2۔ یہ اہداف حاصل کیوں نہیں ہوئے اور اس حملے کے سعودی عرب پر آج تک کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
سعودی اتحاد کی تشکیل اور یمن پر حملے کے متعدد اہداف
1۔ اپنی حمایت یافتہ اور حامی حکومت کو اقتدار میں لانا۔
سعودی عرب نے ہمیشہ یمن میں مداخلت کا کردار ادا کیا ہے اور اس ملک کو اپنا حصہ سمجھتا ہے،یمن میں سعودی عرب کی مداخلتوں میں 1994 میں یمن کی خانہ جنگی میں اس ملک کے کردار کا ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں یمن کے نائب صدر علی سالم البیض نے سعودی عرب کی حمایت سے جمہوریہ یمن کے نام سے جنوبی یمن کی آزادی کا اعلان کیا جو سعودی عرب نے 2015 میں دہرایا اور اس ملک کے مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حمایت کے بہانے آٹھ سال سے یمن کے عوام پر بم گرا رہا ہے۔
2. عرب انقلاب کو اپنی سرحدوں تک پھیلنے سے روکنے کی آل سعود کی کوشش۔
سعودی عرب کی خارجہ پالیسی ایک اہم علاقائی اداکار کے طور پر ظاہر کرتی ہے کہ یہ ملک جارحانہ قدامت پسند پالیسی اپنا کر علاقائی انقلابات کی لہر کو اپنی داخلی سرحدوں تک پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے،اس قسم کے لفظ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خارجہ پالیسی میں اداکار جمود کو برقرار رکھنے اور حکمراں کو تبدیل کرنے کے بااثر عناصر کو بے اثر کرنے کی کوشش کرتا ہے چاہے اس کے لیے اسے دوسرے ملک پر قبضہ ہی کیون نہ کرنا پڑے
3۔ انصار اللہ کے ساتھ محاذ آرائی اور شیعی ہلال کو کمزور کرنا۔
گزشتہ برسوں میں، علاقائی بالادستی کے میدان میں ایران کے ساتھ مقابلے کے تناظر میں، سعودی عرب عراق، لبنان اور بحرین میں اسلامی جمہوریہ کے اثر و رسوخ میں توسیع اور شیعہ ہلال کی تشکیل سے بہت پریشان ہے چنانچہ یمن میں انصاراللہ کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی اس نے شدید خطرہ محسوس کیا اور اس ملک پر حملہ کر دیا۔
4. طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا اور ایران کی علاقائی پوزیشن کے فروغ کا مقابلہ کرنا۔
سعودی عرب عراق میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے آپ کو ایران کے مقابلے میں کھڑا ہو چکا ہے اور ایران کے خلاف ایک قسم کا توازن قائم کرنے نیز اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ خطے کے دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں ایران کے لیے اس کی پالیسی مکمل طور پر جارحانہ رویہ ہے۔
5۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی شبیہ کو بہت بنانا۔
سعودی عرب کی نئی قیادت کا خیال ہے کہ اس ملک کی ثقافتی اور مذہبی امور میں غیر مؤثر روایتی آلات اور طریقوں کا سہارا لینے سے سعودی عرب کا قومی وقار کمزور ہوا ہے اور خطے میں اس کا کردار کم ہوا ہے اس لیے ہتھیاروں پر اربوں ڈالر خرچ کر کے اور فوجی طاقت کا مظاہرہ کر کے سعودی عرب کے علاقائی وقار کو بڑھانے میں مدد کرنا ضروری ہے اس مقصد کے ساتھ انہوں نے یمن کو فوجی طاقت کے استعمال کے لیے چنا لیکن یہ جنگ 8 سال گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔
8 سال کی مداخلت کے بعد سعودی اتحاد کی ناکامی۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے ہتھیاروں کے ذریعہ سعودی قیادت والے اتحاد کے اعلان کردہ اہداف؛ عبد ربہ منصور ہادی کو اقتدار میں بحال کرنا، یمن کے سیاسی مستقبل میں علی عبداللہ صالح کی مخالفت اور انہیں کوئی کردار نہ دینا، انصار اللہ کو پیچھے دھکیلنا تھے لیکن حقیقت کچھ اور ہی نکلی اور تقریباً 8 سال کی فوجی جارحیت کے بعد بھی سعودی عرب اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا، آل سعود جو گذشتہ برسوں میں اپنے آپ کو خادم حرمین شریفین اور امت اسلامیہ کا محسن کہلا کر اپنا وقار بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا،تاہم ہزاروں یمنی عورتوں اور بچوں کے قتل سے نہ صرف یہ کہ اس کا سابقہ وقار بحال نہیں ہوا بلکہ یہ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں انسانیت کے خلاف اس کے جرائم کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں۔
واضح رہے کہ خطے اور اسلامی دنیا کے امیر ترین ملک جو اپنی فوجی طاقت کو خریدنے اور بہتر بنانے کے لیے سالانہ کئی ارب ڈالر خرچ کرتا ہے ، کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے عرب خطے کے غریب ترین ملک پر فوجی یلغار ، اس غیر مساوی جنگ میں بھاری شکست کا باعث بنی۔ ہر کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ آل سعود کے پاس سوائے تیل کی فروخت اور اسلحہ خریدنے کا کوئی دوسرا فن نہیں ہے اور اس قدر جدید ہتھیاروں سے وہ اس ملک کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے جو فوجی سازوسامان کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے،اس جنگ نے واضح طور پر سب کے سامنے سعودی عرب کی فوجی نااہلی کا ثبوت دیا۔
قابل ذکر ہے کہ انصاراللہ کو شکست دینے کا آل سعود کا خواب پورا ہونا تو دور کی بات وہ اپنے سرحدی صوبوں جیسے عسیر، جیزان اور نجران کی سلامتی سے بھی محروم ہو گئے اور ان صوبوں کو انصار اللہ کے میزائلوں سے بار بار نشانہ بنایا گیا،آخر کار، سعودی عرب نے جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا،ایک ایسا مسئلہ جس کا براہ راست تعلق انصاراللہ کی اعلیٰ عسکری طاقت سے ہے،مذکورہ بالا معاملات کے علاوہ ایک طرف سعودی عرب میں اندرونی تنازعات کی شدت اور دوسری طرف اتحادی ارکان کے درمیان کشیدگی نے آل سعود کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا،یہ مسئلہ سفارتی تعلقات کی بحالی اور ایران کی علاقائی پوزیشن کو واضح طور پر قبول کرنے کے حالیہ تہران-ریاض معاہدے سے بھی غیر متعلق نہیں ہے۔