سچ خبریں:امریکی تجزیہ کار Scott Ritter کا خیال ہے کہ آنے والے ہفتے پاکستان کے سیاسی مستقبل کے ساتھ ساتھ عمران خان کی قیادت میں ہونے والے عوامی احتجاج میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں پیش آنے والی حالیہ صورتحال ، عوامی احتجاج کے تسلسل حتیٰ کہ شدت اور گزشتہ ہفتوں میں عمران خان پر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان احتجاج اور سیاسی صورتحال کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔
پاکستان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟
امریکی تجزیہ کار Scott Ritter کا کہنا ہے کہ میری رائے میں آنے والے دن اور ہفتے پاکستان کے لیے بہت اہم ہو سکتے ہیں، اس لیے کہ اس ملک کے آرمی چیف کا اعلان بھی آنے والے ہفتوں میں ہونا ہے اور پاکستان میں فوج کا کمانڈر ہونا بہت اہم ہے جو اس ملک کی انتظامیہ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ پاکستان میں فوج کی بہت اہمیت ہے، دوسری جانب فوج کے کمانڈر کے انتخاب کے بعد قبل از وقت انتخابات کرانے کی درخواست دگنی اہمیت اختیار کر سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں فوج کے سپہ سالار ہونے کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس ملک کی تاریخ میں کئی بار وزیراعظم کو فوج نے معزول کیا ہے، اس وقت عمران خان کے احتجاج کا ایک اہم محور آرمی کمانڈر کی تقرری ہے، میری رائے میں عمران خان اس انتخاب کے مطابق مختلف اوقات کا انتظار کر رہے ہیں،انہوں نے اپنی نااہلی اور اقتدار سے ہٹائے جانے کے خلاف اپنے احتجاج میں یہ بھی نشاندہی کی کہ پاکستانی حکام کو ڈر تھا کہ میں اپنے کسی شخص کو فوج کمانڈر بنا کر پاکستان کا سیاسی کنٹرول سنبھالنا چاہتا ہوں۔
عمران خان پر ہونے والا ناکام قاتلانہ حملہ اس سیاسی مستقبل پر کیا اثر ڈالے گا؟
اس امریکی تجزیہ کار نے کہا کہ عمران خان کو بہت سے سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے،تاہم اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ وہ عوام میں مقبول شخصیت ہیں، عمران خان کو عوامی حمایت حاصل ہے، البتہ مقبولیت میں اس اضافے میں ان کے بعد آنے والوں کا کردار بھی کم نہیں،عمران خان کے بعد آنے والوں کی طرف سے جو معاشی صورتحال پیدا ہوئی اس کی وجہ سے لوگ ان کی طرف زیادہ مائل ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاشی صورتحال کی یہ افراتفری جو یقیناً غلط فیصلوں کی وجہ سے دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے، عمران خان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ہے،وہ جو وعدے کرتے ہیں اور پاکستانی حکام کی کارکردگی کے بارے میں ان کی تنقیدوں نے یہاں تک کہ کچھ شخصیات اور فوجی حکام کو بھی ان کے ساتھ جوڑ دیا ہے جوعمران خان کے لیے مستقبل میں ان کی اگلی سیاسی کاروائیوں میں ایک اچھا کلیدی نکتہ ثابت ہو سکتا ہے۔
کیا عمران خان اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے یا احتجاج جاری رکھیں گے؟
امریکی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اس وقت عمران خان کے لیے بہت اچھا موقع ہے،اس وقت وہ جہاں ہیں وہی پہنچنا چاہتے تھے ، اب صورتحال عوامی مظاہروں کے تسلسل کے لیے پوری طرح تیار ہے،اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملہ بھی ان کے لیے اس ملک کے سیاستدانوں کی سازش پر زور دینے اور اس پر مزید فوکس کرنے کی ایک معقول وجہ بنی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں یہ مظاہرے جاری رہیں گے، عمران خان اپنے مقصد کے حصول تک انہیں جاری رکھیں گے،عمران خان نے اب تک یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کی شخصیت نہیں بننا چاہتے بلکہ وہ پاکستان کے سیاسی مستقبل میں کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں اصلاحات کے لیے ان کے پاس جامع منصوبے ہیں اور وہ جو احتجاج کی کالیں دیتے ہیں سب اسی لیے ہیں لہٰذا ایسا نہیں لگتا کہ وہ موجودہ حالات سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ہیں جس کی تصدیق پاکستان کے عوام اور بعض عسکری شخصیات نے بھی کی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم
امریکی تجزیہ نگار نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی معیشت انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہے اور اس سمت میں ہر وعدہ اور اقدام عمران خان کو اس مقام تک پہنچا سکتا ہے جو وہ چاہتے ہیں،میرے خیال میں اس معاشی صورتحال نے عوام پر اس حد تک دباؤ ڈالا ہے کہ فوج کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا ہے اور شاید آنے والے ہفتے جس پر میں نے زور دیا ہے، پاکستان کے لیے کلیدی ثابت ہو سکتا ہیں ، شائد فوج ایک غیر متوقع اقدام میں عمران خان کا ساتھ دے گی، میری رائے میں ہمیں پاکستان کے آنے والے دنوں کا بغور مشاہدہ کرنا چاہیے۔
Scott Ritter 15 جولائی 1961 کو فلوریڈا کے گینس ویل میں ایک فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے، 1979 میں جرمنی کے کیزرسلاؤٹرن کے امریکن ہائی اسکول سے گریجویشن کیا اور بعد میں لنکاسٹر، پنسلوانیا کے فرینکلن اور مارشل کالج سے سوویت یونین کی تاریخ میں بی اے کیا،1980 میں انہوں نے ریاستہائے متحدہ کی فوج میں بطور سپاہی خدمات انجام دیں، پھر مئی 1984 میں ریاستہائے متحدہ میرین کور میں ایک انٹیلی جنس افسر کے طور پر تعینات ہوئے، انہوں نے اس عہدے پر تقریباً 12 سال خدمات انجام دیں،واضح رہے کہ Scott Ritter 1991 سے 1998 تک عراق میں اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپکٹررہ چکے ہیں جس کے بعد انہوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مارچ 2003 میں عراق پر حملے سے پہلے انہوں نے کہا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کوئی اہم ہتھیار نہیں تھے، انہوں نے افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور ایران عراق جنگ پر میرین کور ریپڈ ڈیپلائمنٹ فورس کے لیڈ تجزیہ کار کے طور پر خدمات انجام دیں۔