سچ خبریں:سعودی عرب میں 90 لاکھ غیر ملکی کارکن مقیم ہیں جنہیں اپنے کام کے بدلہ کم سے کم اجرت کا مطالبہ کرنے یا ملازمت کا انتخاب کرنے یہاں تک کہ ملک چھوڑنے کی آزادی بھی نہیں ہے۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
سعودی عرب اور غیر ملکی کارکنوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں
اگرچہ 1964 سے سعودی عرب میں غلامی پر سرکاری طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، لیکن اس وقت بھی اس ملک میں بہت سے غیر ملکی کارکن غلاموں جیسی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور اس ملک میں موجود غیر ملکی کارکنوں کو زیادہ کام، تھکاوٹ، اذیت اور تشدد یہاں تک کہ پانی اور خوراک سے بھی محرومی جیسے مسائل سے دوچار ہونے کی دستاویزی رپورٹس موجود ہیں، یاد رہے کہ سعودی عرب کے حالات کی وجہ سے برسوں سے غیر ملکی کارکن بدترین حالات زندگی میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں غیر ملکی کارکنوں بالخصوص خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم میں سے کچھ ہی اچھی ملازمت تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں، یاد رہے کہ سعودی عرب میں تقریباً 9 ملین غیر ملکی کارکن ہیں جبکہ یہاں تارکین وطن کے لیے مشکل حالات کی وجہ سے لاکھوں کارکن یہ ملک چھوڑ چکے ہیں،قابل ذکر ہے کہ غیر ملکی کارکنوں کو اپنے آجروں جو عام طور پر سعودی کمپنیاں یا افراد ہیں جو کارکنوں سے منافع لیتے ہیں، سے اجازت حاصل کیے بغیر سعودی عرب چھوڑنے یا ملازمتیں تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔
سعودی عرب جانے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اس ملک میں کام کی تلاش میں آتے ہیں،تاہم یہ لوگ عام طور یہاں پر انتہائی نامساعد حالات میں رہتے ہیں، تارکین وطن اور کارکنوں کو جبری روپوش کیا جانا، ان کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک، من مانی گرفتاریاں، استحصال یہاں عام بات ہے جبکہ سعودی عرب کا کوئی قانون مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت کی ضمانت نہیں دیتا، یہی وجہ ہے کہ مقامی ورکرز بھی تارکین وطن ورکرز کی طرح اکثر اجرت وصول کرنے میں تاخیر یا انکار کا سامنا کرتے ہیں جبکہ خواتین ورکرز اس سلسلے میں بدسلوکی کا زیادہ شکار ہوتی ہیں، اس کے علاوہ گارنٹر سسٹم جو ورکرز کے رہائشی اجازت نامے کو ان کے آجروں سے جوڑتا ہے، مزدوروں کے ساتھ بدسلوکی کی ایک بڑی وجہ ہے، اس کے علاوہ لیبر کورٹ میں عدالتی اور فوجداری تفتیش بہت سست اور مہنگی ہے، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے کارکنوں کے لیے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے یہاں جانا عملاً ناممکن ہے۔
اجرت کی عدم ادائیگی، پاسپورٹ ضبط کرنا، رہائشی اجازت نامے کی تجدید نہ کرنا وغیرہ غیر ملکی کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی اور استحصال کے چند ہتھیار ہیں، ان میں سے اکثر غریب ممالک جیسے سری لنکا، فلپائن، نیپال، پاکستان اور موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے محنت کش اپنے ملکوں میں پائی جانے والی غربت اور بدحالی سے بچنے اور اپنے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے واحد مقصد کے ساتھ سعودی عرب آتے ہیں لیکن یہاں آکر انہیں تھوڑی سی رقم کے بدلے میں اپنے سعودی آقاؤں کے لیے لمبے وقت تک کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ،بہت سی خواتین ورکرز کے لیے اپنے مالکان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کرنا بھی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی یہ ورکرز اس صورت حال سے نکل کر خود کو بچانے کے قابل ہوتی ہیں اس لیے کہ اگر وہ بغیر کسی دستاویزات کے سعودی عرب میں گرفتار ہوئیں تو انھیں بھاری جرمانے ادا کرنا پڑتے ہیں اور بہت سے معاملات میں یہ غیر ملکی کارکن طویل عرصے تک یہ جانے بغیر قید میں رہتے ہیں کہ ان کا جرم کیا ہے۔
اس تناظر میں؛ کچھ عرصہ قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس ملک میں پناہ گزینوں کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ،اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعود عرب میں پناہ گزینوں کو من مانی حراستوں ، غیر منصفانہ فیصلیوں اور تشدد کا سامنا ہے ،اس تنظیم نے سعودی حکومت پر اقتصادی اور تیل کے وسائل پر انحصار کی وجہ سے اس ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کی تحقیقات کو روکنے کا نمایاں الزام لگایا تھا،ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے آخر میں سعودی حکام سے ایک بار پھر کہا گیا ہے کہ وہ اس ملک میں قید پناہ گزینوں کی حالت جلد از جلد واضح کریں۔
واضح رہے کہ کام کے لیے سعودی عرب آنے والے مرد اور خواتین کارکنوں ملازمت کے معاہدوں پر دستخط کرنا ہوتے ہیں، ہیومن رائٹس واچ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی خواتین کے حقوق کی ایک محقق نے کہا کہ یہ معاہدے اور کمزور لیبر قوانین گھریلو ملازمین کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں،سعودی عرب میں بہت سی غیر ملکی خواتین ورکرز کو سعودی آجروں کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے اور درد اور تکلیف کا معمولی سا اظہار بھی ذہنی اور جسمانی اذیت یہاں تک کہ انہیں نوکری سے نکال دیے جانے کا باعث بنتا ہے۔
ٹیلی گراف اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی حکام جیلوں میں قید تارکین وطن کو اتار کر بیڑیاں ڈال دیتے ہیں، عبدالرحمن سفیان، ایتھوپیائی تارکین وطن میں سے ایک جو اس سے پہلے سعودی جیلوں میں رہ چکے ہیں، اس سلسلہ میں کہتے ہیں کہ سعودی جیلوں میں مارا پیٹا جانا ایک عام سی بات ہے جبکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کو کیوں مارا پیٹا جا رہا ہے، جیل کے اہلکاروں نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے مارا اور جب وہ تھک گئے تو انہوں نے قیدیوں کو لاتیں ماریں، ہمیں جانور کہا،27 جنوری 2021 کو ٹیلی گراف اخبار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان میں سے بہت سے تارکین وطن سعودی جیلوں میں انتہائی دباؤ اور غیر انسانی حالات کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں، اسی تناظر میں ایک 16 سالہ افریقی نوجوان نے پھانسی لگا کر خودکشی کر لی جس کے بعد سعودی حکام نے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ٹوکری میں ڈال دیے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کو سعودی عرب میں تارکین وطن اور مزدوروں کے معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرنی پڑی جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی ان رپورٹس کی صداقت کی تصدیق کی ہے۔