🗓️
سچ خبریں:آل سعود ظالمانہ قوانین بنا کر اپنے مخالفین کو دبانے کی پالیسی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیتے ہوئے ان کا جواز پیش کرتے ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حالیہ برسوں میں خود کو اس ملک کی مسند شاہی کے قریب کرنے کے بعد، ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے اور یہ بہانہ بنایا کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں ، وہ اب اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند شہری کے طور پر پیش کریں گے جہاں وہ اپنے نظریے، عمل اور رویے کی زیادہ آزادی حاصل کریں،بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے وہ اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں،تاہم اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح میں رچ بس چکا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں میں اس ملک کے اندر سیاسی مخالفین کو پھانسی دینے، مذہبی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی اور بدعنوانی کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ جیسے معاملات کی صورت میں مشاہدہ کیا جا چکا ہے،دوسری جانب آل سعود نے اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کے لیے بھرپور کوششیں کرنے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی ہے جو خطے دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کا باعث بنی ہے اور اس کے نتیجہ میں ان میں سے بعض میں جنگ بھی چھڑ چکی ہے جس کی ایک مثال یمن ہے۔
درج ذیل سسلہ وار تجزیہ میں جس چیز کا جائزہ لیا جائے گا وہ ہے ملکی اور بین الاقوامی دونوں میدانوں میں سعودی حکومت کی متضاد پالیسیاں اور آل سعود حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیل۔
1: سعودی عرب کا اندرونی میدان
الف: سعودی عرب میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیاں
گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی آزادانہ اور جمہوری انتخابات نہ کروانے والی آل سعود حکومت کے جرائم کے سلسلہ میں عالمی برادری کی خاموشی ایسے وقت میں ہے جب کہ مغرب اور خاص طور پر امریکہ نے پچھلی دہائیوں کے دوران خطے کے بہت سے ممالک میں جمہوریت ، آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہانے جنگ کو ہوا دی ہے بلکہ ان ممالک میں فوجی مداخلت بھی کی ہے، لیکن انہوں نے سعودی حکام کی بھرپور حمایت کی کی پالیسی اپنائی ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں حکمرانوں کی صلاحیت پر مبنی آئین نہ ہونے کی وجہ سے آل سعود خاندان کی ترجیحات کے مطابق حکومت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس ملک میں ہر قسم کے امتیازات اور سعودی شہریوں پر ہر قسم کے ظلم و جبر کی اجازت ہے جبکہ یہ مسئلہ اس ملک میں عدم اطمینان کا باعث بنا ہے، حالیہ برسوں میں اور عرب ممالک میں عوامی انقلابات کے آغاز کے بعد دہشت گردی سے متعلق قانون کی منظوری نے آل سعود حکومت کو ہاس ملک کے عوام کو دبانے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی ہے ، اگرچہ سعودی عرب میں گھٹن اور جبر کی فضا کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مقدار کے درست اعدادوشمار شائع نہیں کیے جاتے لیکن کم سے کم بھی سامنے آنے والی رپورٹیں ریت کی اس بادشاہی میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے 2013 میں سعودی عرب میں نظربندوں کے بارے میں خبریں شائع کرنے کے لیے بنائی جانے والی نیوز ویب سائٹ ” نافذة تواصل ” کی رپورٹ میں آیا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کے اعلان کے مطابق 15 مئی 2014 تک حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد 26766 جن میں سے 203 افراد بغیر مقدمہ چلائے 6 ماہ سے زائد عرصے سے قید ہیں، 16 افراد 2 سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں جبکہ ایک شخص کو 10 سال سے زائد عرصے سے قید کی سزا سنائی گئی ہے، تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 30 ہزار ہے نیز ان جیلوں کا شمار دنیا کی بدترین جیلوں میں ہوتا ہے،انسانی حقوق کے محافظوں کی صورت حال پر خصوصی رپورٹ پیش کرنے والی محترمہ مارگریٹ سکاگیا نے 2008 اور 2014 کے درمیان اپنی رپورٹوں میں کئی معاملات میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کے محافظوں کی صورت حال کا تذکرہ کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر وہ مسائل ہیں جو مذکورہ خصوصی نمائندے کی نظرمیں باعث تشویش ہیں جیسے؛ انسانی حقوق کے محافظوں کو مظاہروں اور دھرنوں کی اجازت نہ دینا، اظہار رائے کی آزادی کا فقدان، انسانی حقوق کے محافظوں کو دھمکانا اور تشدد کرنا، قید تنہائی اور قیدیوں کے لیے طبی خدمات کا فقدان، سفری پابندیاں، انسانی حقوق کے محافظ اور انسانی حقوق کی انجمنوں کی رجسٹریشن نہ کرنا۔
اس حوالے سے سعودی لیکس ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں سعودی عرب میں انسانی حقوق اور آزادی کی مخدوش صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے یورپ میں مقیم سعودی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے حوالے سے لکھا کہ اس تنظیم کے مشاہدے کے مطابق سعودی شہریوں کو ان کی گرفتاری کے لمحے سے ہی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ہر قسم کی اذیتیں دی جاتی ہیں اور یہ اذیتیں عدالت کی جانب سے انہیں سزائیں سنائے جانے کے بعد بھی نہیں رکتیں بلکہ سزا پر عمل درآمد کے بعد بھی ناروا سلوک جاری رہتا ہے بلکہ سزا یافتہ افراد کے اہل خانہ کو ابھی اس میں شامل کر دیا جاتا ہے،انسانی حقوق کی اس تنظیم کے اعلان کے مطابق سعودی حکام ایسے قیدیوں پر طرح طرح کے ذہنی اور جسمانی تشدد کرتے ہیں جنہیں بعد میں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، دوران حراست انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور جبری جلاوطن کر دیا جاتا ہے جو بعض صورتوں میں بہت طویل ہوتا ہے، مارچ 2022 میں پھانسیوں سے متعلق امور سمیت سعودی حکومت کو لکھے گئے خطوط میں خصوصی نمائندوں نے تصدیق کی اور نشاندہی کی کہ سعودی حکومت مخالفین میں سے دو "اسد شبر” اور "محمد الشاخوری” کو گرفتاری کے بعد ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا۔
انسانی حقوق کی یہ یورپی سعودی تنظیم آل سعود حکام کے ہاتھوں دیے جوانے والے جسمانی تشدد کی دستایزات پیش کی ہیں جن میں بجلی کے جھٹکے، نیند کی کمی، مارنا، ناخن کھینچنا، الٹا لٹکانا اور دیگر سزائں شامل ہیں جن کا مقصد حراست میں لیے گئے شخص کو پوچھ گچھ کے دوران اعتراف جرم کرنے پر مجبور کرنا ہے، اس قسم کے تشدد کا سامنا کرنے والوں میں نوجوان "مصطفیٰ الدرویش” بھی شامل ہے، جسے جون 2021 میں پھانسی دے دی گئی تھی، اور اس وقت اسے دوبارہ دھمکی دے کر اعترافی بیان پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تھا،جسمانی اذیت کے علاوہ اس تنظیم نے متعدد ایسے قیدیوں کے خلاف نفسیاتی تشدد کا مشاہدہ کیا ہے جنہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی، جن میں ان کے اہل خانہ کو دی جانے والی دھمکیاں بھی شامل ہیں، حیدر آل لیف نامی ایک حکومت مخالف جسے 23 اپریل 2019 کو پھانسی دی گئی تھی، کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر اس نے اعتراف جرم پر دستخط نہیں کیے تو اس کی بیوی کو اس سے طلاق لینے کے لیے جیل میں طلب کیا جائے گا۔
یورپ میں مقیم سعودی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق زیر حراست افراد کو اپنے اہل خانہ سے رابطے سے محروم رکھنے، مار پیٹ اور روزانہ کی توہین جیسے دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ تشدد کے نتیجے میں بہت سارے افراد مستقل معذوری یا چوٹ اور درد کے ساتھ ساتھ کوما میں چلے جاتے ہیں، تاہم اس کے باوجود انہیں طبی علاج کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے،رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اپریل 2019 میں پھانسی دیے جانے والے نوجوان "منیر آل آدم” تشدد کے باعث قوت سماعت سے محروم ہو گئے تھے، اسی اجتماعی پھانسی پانے والے ایک اور نوجوان "عبداللہ آل طریف” تھے جسے تشدد کے دوران ایسی چوٹیں آئیں کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی متأثر ہوئی ، بائیں آنکھ ترچھی ہوئی اور جسم کے دیگر حصوں کو بھی نقصان پہنچا۔
انسانی حقوق کی اس سعودی تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقدمات کی سماعت شروع ہونے کے بعد اور بعض کیسز میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھی قیدیوں کے خلاف ناروا سلوک اور تشدد جاری رہتا ہے،اس تنظیم کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ سعودی قیدی سعود الفرج، کہ استغاثہ جس کی پھانسی چاہتی ہے، مقدمے کی سماعت شروع ہونے کے بعد اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کے حق سے محروم کیے جانے کی مخالفت کی وجہ سے قید تنہائی میں واپس بھیج دیا گیا،سزائے موت کا نشانہ بننے والے افراد کے علاوہ ان کے خاندانوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا جاتا ہے ، یہ خاندان اپنے بچوں کو الوداع کہنے کے حق سے محروم رہتے ہیں بلکہ بعض خاندانوں کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان سزاؤں پر عمل درآمد کی اطلاع ملتی ہے جو انہیں سنگین نفسیاتی نقصان پہنچاتا ہے،اس کے علاوہ اہل خانہ کو اپنے پیاروں کو دفن کرنے کا حق حاصل نہیں اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہوں کہ انہیں کہاں دفن کیا گیا ہے جو اہل خانہ کے خلاف مسلسل تشدد کی ایک شکل ہے۔
یورپ میں سعودی انسانی حقوق کی تنظیم کے مشاہدے کے مطابق سعودی عرب کی حکومت نے سزائے موت پانے والے 132 افراد کی لاشیں ان کے اہلخانہ کےحوالے نہیں کیں،انسانی حقوق کی اس تنظیم نے مزید کہا کہ شدید جبر، انسانی حقوق کے محافظوں کی گرفتاری، سول سوسائٹی کی کسی بھی سرگرمی کی روک تھام اور خاندانوں کو دھمکانے کی وجہ سے قیدیوں کے بارے میں معلومات تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔
بیان اور سوچ کی آزادی کا فقدان
سعودی عرب واحد ملک ہے جس نے اپنے جبر کے لیے قوانین بنائے ہیں، یہاں مظاہروں یا دھرنوں کی کال دینا، اصلاحات کا مطالبہ کرنا، عہدیداروں پر تنقید کرنا یا ملکی اور غیر ملکی گروپوں اور جماعتوں میں شامل ہونا دس سال قید یا پھانسی کی سزا کا باعث بنتا ہے ،دہشت گردی کےخلاف قانون کے مطابق کوئی بھی شخص جو مظاہروں یا دھرنوں کی کال دیتا ہے، یا اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے بیان پر دستخط کرتا ہے، یا حکام پر تنقید کرتا ہے، یا ملک کے اندر اور باہر مختلف گروپوں اور جماعتوں میں شامل ہوتا ہے، یہاں تک کہ انٹرنیٹ پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے،دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے، یہ قانون وزیر داخلہ کو لوگوں کو دبانے کے لامحدود اختیارات دیتا ہے، اسے ایسے کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت تک گرفتار کرنے کے لیے عدالتی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، وہ لوگوں کی جائیداد ضبط کر سکتا ہے اور بغیر عدالتی کاروائی کے ان کی فون کالز سن سکتا ہے،مثال کے طور پر، چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے وطن واپس آنے والی انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لیڈز کی 34 سالہ سعودی طالبہ سلمی الشہاب کو سعودی حکومت نے ٹویٹر اکاؤنٹ رکھنے ،حکومت مخالفین اور انسانی حقوق کے تنقیدی کارکنوں کے مواد کو فالو کرنے اور دوبارہ شائع کرنے پر 34 سال قید اور مزید 34 سال بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کردی۔
سعودی فوجداری عدالت نے اس ملک کے سوشل میڈیا کارکن داؤد العلی کو بھی فلسطینی کاز کی حمایت میں ٹویٹس لکھنے اور سعودی عرب کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر 25 سال قید کی سزا سنائی ، سعودی عدالت نے زیر حراست کارکن ناصر المبارک کو ٹوئٹر پر ایک پیغام کی اشاعت کی وجہ سے 16 سال قید کی سزا سنائی ، یہ تمام کاروائیاں تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ہوئیں، یاد رہے کہ سعودی عرب میں آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی کے حوالے سے انسانی حقوق کی متعدد رپورٹیں اس ملک کے شہریوں کے ایسے متعدد واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہیں جنہیں اپنی رائے کے اظہار کی وجہ سے گرفتار، تشدد یہاں تک کہ پھانسی تک کا نشانہ بنایا گیا ہے،یہاں ہم متذکرہ مقدمات کی تفصیلات کا حوالہ دیئے بغیر، ہم ان خاکوں کی فہرست پیش کر رہے ہیں جن کا سعودی عرب کے بارے میں انسانی حقوق کی متعدد رپورٹوں میں ذکر کیا گیا ہے۔
۔ پرامن مظاہروں کی اجازت نہ دینا، خاص طور پر انسانی حقوق کے محافظوں کی طرف سے ۔
۔ ٹیلی ویژن یا اخبارات جیسے ذرائع ابلاغ میں ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال کے بارے میں رائے کے اظہار کی آزادی کا فقدان ۔
۔ سیاسی اصلاحات کی درخواست کرنے کی آزادی کا فقدان ۔
۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی ۔
۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشکیل کی درخواست کرنے کی آزادی کا فقدان۔
۔ جمہوری اصلاحات اور نظربندوں کی رہائی کے لیے حمایت کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ۔
انسانی حقوق کے دفاع کے لیے پرامن اور جائز سرگرمیوں کی اجازت نہیں ۔
۔ اس ملک کے حکام کی جانب سے مذہبی اقلیتوں بالخصوص شیعوں کی توہین اور دھمکیوں کے ذریعہ آزادی اظہار کا غلط استعمال۔
۔ ملک کے نظام حکومت کے بارے میں گفتگو اور آزادی اظہار رائے کی اجازت نہیں۔
۔ پارٹیوں کی تشکیل اور ان کی آزادانہ سرگرمی کا ناممکن ہونا۔
اقلیتوں بالخصوص شیعوں کو اپنے خیالات کے اظہار اور مظاہروں کی اجازت نہ دینا۔
جاری ہے۔۔۔
مشہور خبریں۔
اسرائیل کے اقدامات صدی کی بربریت
🗓️ 29 دسمبر 2023سچ خبریں:مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی نمائندہ
دسمبر
ایرانی ڈرونز کب روس پہنچے، ہمیں نہیں معلوم:پینٹاگون
🗓️ 25 فروری 2023سچ خبریں:امریکی محکمہ دفاع کی نائب ترجمان سبرینا سنگھ نے اپنی پریس
فروری
کیا غزہ جنگ ایران نے شروع کی ہے؟
🗓️ 19 اکتوبر 2023سچ خبریں: روسی وزیر خارجہ نے غزہ کا بحران ایجاد کرنے میں
اکتوبر
ترکی ہاتھ سے نکل گیا:امریکی میڈیا
🗓️ 29 مئی 2023سچ خبریں:ممتاز امریکی میڈیا نے ترکی کے صدارتی انتخابات میں رجب طیب
مئی
بریکس کی اقتصادی بالادستی کا آغاز
🗓️ 23 اکتوبر 2024سچ خبریں:فرانس کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت قومی محاذ کے
اکتوبر
افغانستان میں عام شہریوں کی خونریزی کا سلسلہ جاری، مزید درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے
🗓️ 13 جون 2021کابل (سچ خبریں) افغانستان میں آئے دن عام شہریوں کی خونریزی کا
جون
عراقی انٹیلی جنس چیف کے شام کے دورے کے پس پردہ پیغامات
🗓️ 28 دسمبر 2024سچ خبریں: شام کے خود ساختہ حکمران ابو محمد الجولانی سے عراق
دسمبر
اے آئی ٹولز سے لیس ایپل کے 4 آئی فون 16 پیش
🗓️ 14 ستمبر 2024سچ خبریں: اسمارٹ فون بنانے والی امریکی کمپنی ایپل نے اب تک
ستمبر