سچ خبریں:صیہونی حکومت کی داخلی صورت حال میں انتشار بالخصوص نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اس حکومت کے اداروں میں ہونے والی تبدیلیوں کی روشنی میں اسرائیل کے مستقبل قریب کے لیے کئی منظرنامے پیش کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک خانہ جنگی ہے۔
صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے خلاف مقبوضہ فلسطین میں وسیع پیمانہ پر ہونے والے مظاہروں کی نوعیت کے بارے میں کئی سوالات سامنے آرہے ہیں لیکن اہم سوال جو بہت سے مبصرین اور ماہرین اٹھاتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا یہ مظاہرے صرف ان بہت سی تبدیلیوں کی وجہ سے ہیں جو نیتن یاہو کی انتہائی کابینہ نے صیہونی حکومت کے عدالتی نظام کے ڈھانچے میں کی ہیں یا اسرائیلی معاشرے کے اندر ان سے کہیں زیادہ بحران اور تقسیم موجود ہے؟
واضح رہے کہ مقبوضہ علاقوں کے اندر کابینہ کے خلاف مظاہرے اور احتجاجی تحریکیں 10ویں ہفتے میں داخل ہو چکی ہیں اور عبرانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلیوں کے یہ مظاہرے عدالتی تبدیلی کے منصوبے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس کی نیتن یاہو کی سربراہی میں دائیں بازو کی نئے کابینہ اتحاد نے منظوری دی ہے جبکہ ان مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد گزشتہ چند دنوں میں پہلی بار 300000 سے تجاوز کر گئی جس سے مظاہروں کے وسیع ہونے کا پتہ چلتا ہےلیکن نیتن یاہو کی کابینہ سے وابستہ قوتیں احتجاجی مظاہروں کو نمایاں طور پر دبا رہی ہیں جس کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین میں ایک نیا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ نیتن یاہو کی کابینہ کے لیے اپنے کام کے آغاز میں ایک بہت بڑی کمزوری ہے جو صیہونی ریاست میں اندرونی بحران کے گہرے ہونے اور اس حکومت کے سماجی انحطاط اور صیہونیوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، یہاں تک کہ اسرائیلی معاشرے میں تقسیم ایک معمول کا مسئلہ بن چکا ہے اور صہیونیوں میں سے کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا،مظاہروں کے وسیع ہونے اور اسرائیل کے اعلیٰ سکیورٹی، فوجی اور سیاسی حکام کی جانب سے اس حکومت کی اندرونی صورت حال کی سنگینی کے بارے میں خطرناک انتباہات نے صیہونی حکومت کے سربراہ اسحاق ہرزوگ کو کھلے عام اور کھل کر بات کرنے پر آمادہ کیا کہ انہوں نے کہا کہ میں ان مشکل اور خطرناک دنوں کے بارے میں اسرائیلیوں کو خبردار کر رہا ہوں جو ان کے انتظار میں ہیں،ان کے مطابق، یہ اسرائیل کے لیے بدترین دن ہوں گے۔
دوسری جانب اسرائیل کی شباک سروس کے سابق سربراہ یوول ڈسکن، جنہوں نے پہلی بار نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی، نے آئندہ چند ہفتوں میں اسرائیل میں خانہ جنگی کا انتباہ دیا، اس کے علاوہ صیہونی حکومت کے سابق وزیر جنگ بینی گینٹز نے کنیسٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اسرائیل خانہ جنگی کے دہانے پر ہے، تو آپ اسے کب روکیں گے؟ جب خون بہنے لگے گا؟ نئی کابینہ ہمیں خانہ جنگی کی طرف لے جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ مقبوضہ فلسطین میں ہونے والے مظاہرے موجودہ مرحلے میں کسی اور سمت جا رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ بحران روز بروز گہرا ہوتا جائے گا جس کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ مظاہرے واقعی نیتن یاہو کی کابینہ کی طرف سے کی گئی عدالتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہیں یا کوئی بڑا بحران آنے والا ہے اور ان مظاہروں کی جڑیں صہیونی معاشرے میں موجود تقسیم سے جا ملتی ہیں؟ نیز کیا اس طرح کے مظاہروں کا ہونا اسرائیلیوں کے درمیان اختلافات کے بڑھنے اور بالآخر اس حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گا؟
یاد رہے کہ صیہونی ریاست میں پائے جانے والے بحران کے پیچھے کئی اہم وجوہات ہیں جن میں سے پہلی وجہ اس حکومت کی نوعیت کے بارے میں حقیقی اور سنگین اختلاف ہے؛ بنیادی طور پر اسرائیل کی جعلی حکومت حریدیم کے انتہاپسندانہ دعوے کے مطابق، ایک مذہبی حکومت ہے جس کا ذکر تورات میں آیا ہے یا مغربی یہودیوں اور اشکنازیوں کے مطابق ایک سیکولر جمہوریت ہے؟ 2018 کے بعد سے صیہونی حکومت کا سیاسی بحران پہلے سے کہیں زیادہ سامنے آیا اور بتدریج بڑھتا گیا یہاں تک کہ آج اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے ، یہاں ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ کون سے حالات اسرائیلیوں کے انتظار میں ہیں؟ بحران کا جاری رہنا، اگلے مرحلے میں اس کا گہرا ہونا اور شدت اختیار کرنا صیہونیوں کے مستقبل کے لیے سب سے زیادہ امکانی منظر نامہ ہے۔ کیونکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ مستقبل میں اس بحران پر کنٹرول کر لیا جائے گا،نیتن یاہو کی طرف سے امریکی حکومت کو مقبوضہ فلسطین کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے دئے گئے وعدوں کے باوجود صیہونی حکومت کی اندرونی صورت حال بالکل مختلف ہے اور اسرائیل کی کشیدگی کا تعلق صرف فلسطینیوں کے ساتھ تنازع سے نہیں ہے۔
دوسری طرف صیہونی حکومت کے پولرائزیشن کے ساتھ ساتھ اس حکومت کے حلقوں میں بہت سے ممتاز اسرائیلی ماہرین اور قلمکار اسرائیل کے تاریک مستقبل اور اس کی قریب آنے والی تباہی کے بارے میں لگاتار بات کرتے ہیں،اسرائیلی مفکر Jakob Vlavinsky نے Yedioth Aharonot اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ اسرائیل کی پولرائزیشن کی حالت واضح طور پر اس ریاست کے سماجی انہدام کی گہرائی کو ثابت کرتی ہے، جو کئی دہائیوں سے ٹوٹ رہی ہے، اس اسرائیلی تجزیہ کار نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں کے اختلافات وہی اختلافات اور نفرتیں ہیں جو پچھلے سالوں سے موجود ہیں اور اس صورتحال کے بہانے اور اسباب ماضی کی طرح ہیں۔ یہاں تک کہ خانہ جنگی کی اصطلاح بھی اسی زمانے میں اٹھائی گئی جبکہ اس مدت کو 40 سال نہیں گزرے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے اسرائیلی جلاوطن کیے جانے والے یہودیوں کی باتیں کر رہے ہیں، اگر آپ یہودیوں کو اکٹھا کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک سماجی تباہی کی بات کر رہے ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اسرائیل کئی بار اپنی خودمختاری کھو چکا ہے اور اگرچہ اس نے خود کو از سر نو تعمیر کیا ہے لیکن جب اسرائیل اپنے معاشرے میں بھڑکائی ہوئی آگ کو نہیں بجھا سکے گا تو اس کا حشر جلنا ہی ہوگا۔
مبصرین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگرچہ امریکہ کی حمایت میں صیہونی حکومت کے پاس بہت زیادہ فوجی طاقت ہے، لیکن تنازعہ کی شدت اور اسرائیلی معاشرے کے پولرائزیشن کی روشنی میں اس حکومت کے کمزور نکات کے مقابلے میں ایسی طاقت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سیاسی عدم استحکام، ایک آمرانہ حکومت، انتہائی انتہا پسندی اور نسل پرستی کے ساتھ ساتھ انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے اور بھکرے ہوئے اندرونی ڈھانچے کے علاوہ، اسرائیلی ایک غیر معمولی اندرونی کشمکش کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
آخر میں جو بات یقینی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں کئی لاکھ افراد کے احتجاج اور مظاہروں کا بحران یقینی طور پر شدت اختیار کرے گا اور یہی چیز اسرائیل کو کسی بھی حد تک لے جاسکتی ہے، حالات کے قابو سے باہر ہونے کا منظر نامہ صیہونیوں کے لیے قریب ترین اور سب سے زیادہ امکانی منظر نامہ ہے جس کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے جس کے بعد اگلا منظر نامہ افراتفری اور وسیع تصادم اور بالآخر خانہ جنگی ہے۔