سچ خبریں:غزہ جنگ اور قیدیوں کے تبادلے میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے قاہرہ میں ملاقات کرنے والے مذاکرات کاروں نے بغیر کسی نتیجے کے ختم کر دیا۔
ان مذاکرات میں امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ ولیم برنز، قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی، مصری انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ عباس کمیل اور اسرائیلی حکومت کا ایک وفد ان مذاکرات میں شریک تھا۔
جنگ بندی کی مساوات کے ایک طرف حماس اور اسلامی جہاد جیسے فلسطینی گروپ ہیں، جن کی یقیناً مذاکرات میں نمائندگی نہیں تھی۔ مزاحمتی گروہوں نے فلسطینی عوام کے جائز مطالبات اور حقوق کا ادراک اور صیہونی حکومت کی جارحیت اور جرائم کا حقیقی خاتمہ اور غزہ سے ان کے انخلاء جیسے مقاصد کے حصول کے لیے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ امداد کی ترسیل میں اضافہ اور اس ساحلی پٹی میں بین الاقوامی امداد کی آمد کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے تبادلے کو مزاحمتی معیار کی بنیاد پر مشروط کیا گیا ہے۔
اسی تناظر میں فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے اور قیدیوں کے تبادلے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنا چاہتی ہے اور غزہ کی پٹی کے جنوب سے آنے والے پناہ گزینوں کو شمال کی طرف واپس جانے کی اجازت نہیں دینا چاہتی۔ حماس نے بھی رفح پر حملے کو جنگ بندی مذاکرات کی معطلی اور قیدیوں کے تبادلے کی وجہ قرار دیا ہے۔
نیتن یاہو نے حماس کی تجویز کو مسترد کر دیا
مساوات کی دوسری طرف صیہونی حکومت ہے۔ صہیونی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ نیتن یاہو نے حماس کے ساتھ معاہدے کی موساد اور شباک کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 نے خبر دی ہے کہ موساد کے سربراہ کی قیادت میں اسرائیلی وفد بغیر کسی پیش رفت کے قاہرہ سے روانہ ہو گیا ہے۔
اسرائیلی اور امریکی دونوں ذرائع کا کہنا ہے کہ زیادہ سنجیدہ مذاکرات کی طرف پیش رفت کو روکنے میں بنیادی فرق قیدیوں کی زیادہ تعداد ہے جنہیں حماس کسی بھی اسرائیلی یرغمالیوں خصوصاً فوجیوں کی رہائی کے بدلے رہا کرنا چاہتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس حکومت کے وفد کو قاہرہ بھیجے جانے سے قبل صیہونی حکومت کے سیاسی اور سیکورٹی رہنماؤں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور بظاہر اس کی وجہ سے جنرل نتزان الون نے مقبوضہ فلسطین میں قیام اور مذاکرات میں شرکت نہیں کی۔
صیہونی حکومت کے سیاسی، انتظامی اور سیکورٹی حکام کے درمیان غزہ کی جنگ کو ختم کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے شدید اختلافات کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جب صیہونی حکومت نے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا تو صہیونی اخبار معاریف نے غزہ کے خلاف جنگ کے خاتمے اور اس حکومت کے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے صہیونی وار کونسل کے منصوبے کا اعلان کیا۔
اردن، قطر اور مصر کی مشورت
اسرائیلی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات کا دوسرا رخ ہے، خطے کے عرب ممالک اور اس سلسلے میں مصر، اردن اور قطر جیسے ممالک نئی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کا مرکز بن چکے ہیں۔ خبر رساں ذرائع نے بتایا ہے کہ واشنگٹن کے دورے پر گئے اردن کے بادشاہ نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن سے ملاقات کی اور غزہ کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔ قبل ازیں عبداللہ دوم نے واشنگٹن میں متعدد امریکی سینیٹرز سے ملاقات میں غزہ میں جنگ روکنے کے لیے عالمی برادری سے مزید کوششوں پر زور دیا۔
مصر، جو جنگ بندی کے لیے ثالثوں میں سے ایک ہے، نے رفح پر صیہونی حکومت کے حملے کے ساتھ ساتھ احتجاج کیا ہے اور غزہ کے باشندوں کی اپنی سرحدوں کی طرف جبری نقل مکانی کی پالیسی کی مخالفت کی ہے۔ پچھلے چار مہینوں کی طرح، قطر میں بھی فلسطینیوں اور صیہونیوں سے لے کر ایران، یورپ اور امریکہ تک علاقائی اور غیر علاقائی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
یورپ کی خاموشی
تاہم یورپی ممالک ان دنوں جنگ بندی کے لیے عملی اقدامات کرنے کے بجائے ایک طرف تو غزہ میں انسانی تباہی کے جاری رہنے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب صیہونی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ رفح پر حملہ کرنے سے گریز کریں، اور زیادہ واضح الفاظ میں، ان کے اقدامات تشویش کے اظہار کے دائرہ کار میں ہیں۔
امریکہ کے رویے میں تضاد
سی آئی اے کے سربراہ کو مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے قاہرہ بھیجنے کے ساتھ ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ میں ہونے والے زیادہ جانی نقصان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تل ابیب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رفح پر بڑا حملہ کرنے سے پہلے مزید سوچے۔ لیکن امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ان کا ملک غزہ کی پٹی میں جامع جنگ بندی قائم نہیں کرنا چاہتا۔ کربی نے دعویٰ کیا کہ صیہونی حکومت کے رفح میں جائز اہداف ہیں اور اسے حماس کے تعاقب میں محتاط رہنا چاہیے۔دریں اثناء امریکی سینیٹ نے یوکرین، اسرائیل اور تائیوان کے لیے 95 ارب ڈالر کے امدادی بل کی منظوری دے دی۔ اس بل میں صیہونی حکومت کے لیے 14 ارب ڈالر اور غزہ کی پٹی سمیت ان علاقوں کے لیے 9 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقم مختص کی گئی ہے جہاں فعال تنازعہ چل رہا ہے۔ اس قرارداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاہرہ مذاکرات میں امریکی نمائندے کی موجودگی امن کی سمت میں کوئی اقدام نہیں ہے بلکہ صیہونی حکومت کی پوزیشن مضبوط کرنے اور تل ابیب کو مزید نکات دینے کے لیے عرب اور فلسطینی فریقوں پر دباؤ بڑھانا ہے۔ . امریکہ کا منافقانہ رویہ اس قدر عیاں ہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے اس ملک اور اس کے صدر کے امن پسند اشاروں سے کہا ہے کہ اگر امریکہ کو عام شہریوں کی ہلاکتوں کی فکر ہے تو صیہونی حکومت کو اسلحہ فراہم کرنا بند کر دے۔