سچ خبریں:فرحہ ایک ایسی فلم ہے جس نے 1948 میں صیہونی حکومت کے جرائم میں سے ایک کو اجاگر کیا ہے، جس میں فلسطین پر غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کو زندہ کیا گیا ہے، یہ فلم مغربی نظریے کے ساتھ صیہونی حکومت کے قبضے تصویر کو زندہ کرتی ہے۔
اردن کے ایک ہدایت کار دارین سلام کی بنائی ہوئی فلم فرحہ نیٹ فلکس چینل پر نشر ہونے سے خطے کے ممالک بالخصوص فلسطین اور عرب ممالک میں ایک لہر دوڑ گئی، فلم کے ہدایت کار اردنی نژاد فلسطینی ہیں جنہوں نے یہ فلم ایک سچی کہانی پر مبنی بنائی جو فلسطین پر قبضے کے ابتدائی سالوں میں پیش آئی،صہیونیوں میں تنقید کی لہر اور خطے کے ممالک میں اطمینان کی لہر پیدا کرنے والی اس فلم کو جاننا اور اس کی تشریح ضروری ہے، ایسی فلم جو مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت اور فلسطینی سرزمین کے دشمنوں کو سخت ناراض کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
فلم کی کہانی اور ساخت
فلم فرحہ 1948 میں مقبوضہ فلسطین کے ایک دیہات میں ایک نوجوان لڑکی کی نوعمری کی کہانی ہے،کہانی کا اصل کردار رضیہ نامی لڑکی ہے جس کا نام فلم میں بدل کر فرحہ رکھا گیا ہے، فرحہ ایک زندہ دل اور ہوشیار لڑکی ہے جس نے اپنی ماں کو کھو دیا، وہ مزید تعلیم کی تلاش میں ہے لیکن چونکہ ان کے گاؤں میں پرائمری اسکول کے بعد لڑکیوں کے لیے اسکول نہیں ہے اس لیے وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی لہذا فرح نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے شہر جانے کا فیصلہ کیا،وہ اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اپنی تعلیم کے بعد استاد بننا چاہتی ہے اور اپنے گاؤں میں لڑکیوں کے لیے ایک اسکول قائم کرنا چاہتی ہے،جب وہ اپنے والد – جو ایک امیر آدمی اور گاؤں کے سربراہ ہیں – کو شہر میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، برطانوی قابضین فلسطین چھوڑ رہے ہیں، جب فرحہ کے والد شہر کے ایک اسکول میں اس کے رجسٹریشن لیٹر پر دستخط کرتے ہیں تو صہیونی غاصب ان کے گاؤں پر حملہ کرتے ہیں،باپ اسے محفوظ رہنے کے لیے اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ شہر بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن فرح والد کے ساتھ رہ جاتی ہے، اس کی جان بچانے کے لیے والد اسے اپنے گھر کے اسٹور روم میں چھپا دیتے ہیں اور دروازہ بند کر دیتے ہیں تاکہ بعد میں آکر فرحہ کی جان بچائیں گے۔
فلم اسٹور روم میں رحہ کی کی تنہائی کے لمحات سے شروع ہوتی ہے،وہ بھوکی رہتی ہے اور وہی کھانا کھاتی ہے جو باوچی خانے میں ہوتا ہے لیکن وہ نہیں جانتی کہ پیاس کا کیا کرنا ہے جس کا علاج وہ اسٹور روم کی چھت کے اوپری حصے میں بنے ایک چھوٹے سے روشندان سے کرتی ہے اور اپنی جان بچاتی ہے،اسی وقت حملہ آوروں سے فرار ہونے والا ایک خاندان ان کے صحن میں داخل ہوتا ہے، فرحہ نے انہیں دروازے کے نیچے موجود سوراخ سے دیکھتی ہے، اس خاندان کی ماں جس کے دو چھوٹے بچے ہیں، حاملہ ہیں اور اب وہ دردِ زہ سے ان کے صحن میں آئی ہیں، صحن میں، خاندان کی ماں اس خاندان کے والد کی مدد سے اپنے بچے کو جنم دیتی ہیں لیکن اس کے پیٹ میں دو بچے ہیں اور قابضین کی آمد اسے دوسرے بچے کو جنم دینے سے روک دیتی ہے، پیدائش کے بعد اور حملہ آوروں کی آمد سے پہلے فرحہ کو انہیں پکارنے اور مدد مانگنے کا موقع ملتا ہے، خاندان کا باپ فرحہ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ابھی وہ اسٹور روم کا دروازہ پوری طرح سے نہیں کھول پاتا ہے کہ حملہ آور وہاں پہنچ جاتے ہیں اور فرحہ کو کو بچانا آدھا چھوڑ جاتا ہے،اب وہ صحن کے دروازے کی شگاف سے دیکھتی ہے کہ قابضین نے 5 افراد پر مشتمل خاندان کو گولی مار دی جبکہ خاندان کی ماں نے ابھی تک دوسرے بچے کو جنم نہیں دیا تھا، صرف شیر خوار بچتا ہے کیونکہ جس سپاہی کو کمانڈر سے اس بچے کو مارنے کا حکم ملا تھا، وہ اس حکم پر عمل نہیں کرتا، لیکن بچہ زندگی میں اکیلا رہ جاتا ہے، فرح دروازے میں موجود خلا سے بچے کو دیکھتی ہے اور اس کی چیخیں سنتی ہے لیکن اس کی مدد نہیں کر سکتی، فرحہ کی کوشش اگلی صبح رنگ لے آتی ہے ، وہ ایک چھوٹے سے ہتھیار کی مدد سے دروازہ کھولتی ہے جو اسے اسٹور روم سے ملتا ہے لیکن تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور صبح تک بچہ مر چکا ہوتا ہے، فرحہ گھر سے نکلتی ہے اور خود کو بچانے کا راستہ ڈھونڈتی ہے اور شام چلی جاتی ہے۔
فلم کا نظریہ
صیہونیوں کے بہت سے جرائم کو نہ دکھانا فلم کے قابل اعتراض نکات میں سے ایک ہے،وہ جرائم جو 500 سے زیادہ دیہاتوں میں ہوئے اور بہت سے گاؤں اور اس کے باشندوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا،فلم اپنی توجہ کا ایک حصہ فلسطینی مذہبی روایت پر تنقید پر مرکوز کرتی ہے جس میں وہ فلسطینی روایت کو جدیدیت گریز روایت کے طور پر دکھاتی ہے، ایسا مسئلہ جس کی فرحہ جیسی فلم میں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی اور اس پر توجہ دینے کے لیے کسی اور میڈیم کا انتخاب کیا جا سکتا ہے،فلم کے آخری حصے میں، فرحہ اپنے پاس موجود پسٹل کو رکھ دیتی ہے اور ایک سرد ہتھیار (چاقو) کے ساتھ اپنے ملک سے نکل جاتی ہے یہ مزاحمت کے بارے میں وہی مغربی نظریہ ہے، جو مکمل طور پر مسلح دشمن کی مزاحمت کو سماجی کارروائیوں میں کم کر دیتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار کی بنیاد پر کہا جانا چاہیے کہ اردنی-فلسطینی ہدایت کار نے فلم فرحہ میں جن علامات کا استعمال کیا ہے اور وہ جن نکات پر زور دیتے ہیں وہ علامات اور نکات وہ ہیں جن پر مغربی نقطہ نظر میں زور دیا گیا ہے،اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلم فرحہ کا ڈسکورس فلسطین کے حوالے سے مغربی ڈسکورس ہے، تاہم رائے عامہ پر اس کے اثرات بالخصوص مغرب کی رائے عامہ اور لبرل و سیکولر نقطہ نظر نمایاں ہیں اور ایسے وقت میں جب مغربی میڈیا انہیں تاریخ سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے ، یہ ایک خزانہ ہے۔
فرح کی فلم کی نمائش پر صہیونیوں کا ردعمل
مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کے درمیان اس فلم کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا، صیہونی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک صیہونیت مخالف فلم – جس کا موضوع ایک فلسطینی خاندان کو گولی مارنا ہے، جسے ایک لڑکی نے روشندان کے ذریعے دیکھا – بین الاقوامی چینلز پر دکھائی جائے،یہ دیکھتے ہوئے کہ اس فلم نے اردن کے نمائندے کے طور پر آسکر فیسٹیول میں شرکت کی اور دیگر بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے، اس سے صیہونیوں کے لیے مزید حساسیت پیدا ہوئی ہے، اس سلسلے میں نیٹ فلکس پر اس فلم کی عالمی سطح پر نشر کیے جانے کے خلاف مہم چلائی گئی،صیہونی کنیست کے انتہا پسند اور صیہونی حکومت کی کابینہ کے رکن ایتمار بن گویرنے اس مہم میں شمولیت اختیار کی اور اعلان کیا کہ ایک اشتعال انگیز فلم ہے اور اسرائیل کے سامنے دنیا میں منافقت کے اس درجے کو بے نقاب کرتی ہے جس کے قیام سے پہلے ہی، ان پر مہلک دہشت گردی کا الزام تھا،صیہونی کنیسٹ اس انتہاپسند رکن کہ نیتن یاہو کی نئی کابینہ میں جس کے انتخاب کو مغربی ممالک اور امریکہ کے حکام کے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے، نے فرحہ فلم کی تیاری اور پیش کش کو دماغ کی انجینئرنگ کی ٹھوس مثال قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کو مرنے والوں اورخون کے پیاسے افراد کی حقیقی تصویر پیش کرنی چاہیے ، انہیں اس فلم کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنا چاہیے، اسرائیل کو اس فلم کی خونی سازش کی کوشش کے سامنے خاموش نہیں رہنا چاہیے جو اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔
صیہونی حکومت کی عبوری کابینہ کے وزیر خزانہ آویگدور لیبرمن جو انتہائی دائیں بازو کے لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں، نے بھی اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا کہ نیٹ فلکس سے ایسی فلم نشر کرنا جنون کی علامت ہے جس کا مقصد ۔ جھوٹے بہانے بنانا اور اسرائیلی فوج کے خلاف نفرت پھیلانا ہے،ہم اسرائیلی فوجیوں کی ساکھ (!) کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے،انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے وزارت خزانہ کے ڈائریکٹرز سے کہا کہ وہ ان مراکز کے بجٹ میں کٹوتی کے انتظامات کریں جنہوں نے یافا میں فرحہ کی فلم کی نمائش کی،صیہونی حکومت کی عبوری کابینہ کی وزیر ثقافت ہیلی ٹروپر نے بھی اس فلم کی نمائش کی اجازت کے اجراء کو اس حکومت کی رسوائی قرار دیا،ان حکام کے بیانات کے علاوہ کئی فنکاروں اور میڈیا شخصیات نے بھی نیٹ فلکس چینل پر اس فلم کی نشریات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی عالمی ریلیز کو روکنے کا مطالبہ کیا۔