🗓️
سچ خبریں: امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے آغاز سے لے کر 7 مارچ 2024 تک امریکہ کی جانب سے اسلحے کی 100 سے زائد کھیپیں مقبوضہ فلسطین بھیجی گئیں۔
تل ابیب میں جمہوریت پسندوں اور دائیں بازو تنظیموں کے درمیان فرق کے بارے میں قیاس آرائیوں کے برعکس، غزہ جنگ کے دوران، امریکہ سیاسی، مالی اور ہتھیاروں کے میدان میں صیہونی حکومت کے اہم اتحادیوں اور حامیوں میں سے ایک ہے۔
بین الاقوامی مبصرین نے غزہ جنگ کے حوالے سے بائیڈن حکومت کے موقف کو وائٹ ہاؤس کی خارجہ پالیسی کے ریکارڈ کا تاریک ترین نقطہ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کا اسرائیل کو ہتھیاروں کا نیا پیکج
آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی نئے سال کے موقع پر اپنے خطاب کے دوران غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کے حامیوں اور دشمنوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو بیان کیا۔
انہوں نے طوفان الاقصیٰ کی جنگ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں کہا کہ غزہ کے عوام پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے کے پہلے ہی دنوں میں امریکیوں اور یورپیوں نے پے در پے مقبوضہ علاقوں کا سفر کیا اور واضح طور پر صیہونی مجرموں کے ساتھ دینے اعلان کیا جو صرف اعلان نہیں تھا بلکہ انہوں نے ہتھیار بھیجے، سہولیات بھیجیں، ہر قسم کی مدد کی، آیت اللہ خامنہ ای نے امریکیوں کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی اس طرح کی پالیسی کو اپنانے کا نتیجہ پوری دنیا میں امریکہ سے نفرت کا باعث ہے، اس بنا پر اس تجزیے میں ہم کوشش کریں گے کہ غزہ جنگ کے دوران صیہونی حکومت کو دی جانے والی امریکی مالیاتی اور ہتھیاروں کی امداد پر ایک نظر ڈالیں۔
مالیاتی اور ہتھیاروں کی امداد
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے صرف ایک گھنٹے بعد بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو ہنگامی امداد بھیجنے کے لیے 2 بلین ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا، 20 اکتوبر کو بائیڈن حکومت نے دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کے اتحادیوں کی مدد کے لیے 106 بلین ڈالر کا منصوبہ مختص کیا جس کی بنیاد پر صیہونی حکومت کی مالی امداد کے لیے 14 بلین ڈالر مختص کیے گئے، سینیٹ میں اس منصوبے کی ابتدائی منظوری کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں میں ولسونین اور جیکسونین دھڑوں کے درمیان دشمنی نے اس بل کی منظوری میں تاخیر کی ہے۔
رون کمپیاس نے ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونے والے ایک کام میں لکھا کہ اسرائیل کے لیے اتنی بڑی امداد مختص کرنا صرف غزہ جنگ میں اس حکومت کی برتری برقرار رکھنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس مالی امداد کا مقصد مختلف محاذوں پر اسرائیل کی پوزیشن مضبوط کرنا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ امریکی سیاستدان جنگ کا دائرہ لبنان یا بحیرہ احمر تک منتقل نہ کرنے کے اپنے سیاسی موقف کے برعکس ہتھیاروں اور فوجی امداد کر کے خطے کے دیگر حصوں میں جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کو مضبوط کر رہے ہیں۔
صہیونی فوج امریکی امداد کے بغیر انخلاء کی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتی تھی
غزہ جنگ کے آغاز سے قبل صیہونی فوج کو امریکی فوجی امداد کی رقم 3.8 بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی تھی، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے اسرائیل کو 1948 سے اب تک 158 بلین ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد ملی لیکن طوفان الاقصیٰ کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ اور صیہونی حکومت کے درمیان فوجی سکیورٹی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا، امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے حکم پر جیرالڈ فورڈ جنگی بیڑے پر تعینات امریکی ٹاسک فورسز غزہ میں اسرائیل کی فوجی کاروائیوں کی حمایت کے لیے مشرقی بحیرہ روم میں گئیں۔
اسی دوران امریکی محکمہ دفاع نے آئرن ڈوم دفاعی نظام کی دوبارہ بحالی کرتے ہوئے تل ابیب کو یقین دلایا کہ گولہ بارود، لڑاکا طیارے اور گائیڈڈ گولہ بارود مقبوضہ علاقوں میں بھیجے جاتے رہیں گے جس کے بعد 14 اکتوبر کو دوسرا امریکی جہاز F-16، F-15 اور E-10 لڑاکا طیاروں کے ساتھ مغربی ایشیا کے لیے روانہ ہوا۔
مذکورہ بالا کے امداد علاوہ امریکی ڈیلٹا فورس غزہ پر منصوبہ بندی اور زمینی حملے کے دوران میدان میں موجود تھی اور اس نے صرف مالی امداد اور مشورے فراہم نہیں کیے تھے۔ اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی حمایت کے حوالے سے سرگرم کارکنوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی شدید تنقید کے بعد، بائیڈن حکومت نے قومی سلامتی کے لیے ایک ہدایت جاری کی، جس کے مطابق اسے اسرائیلی حکومت سے شہریوں کے خلاف امریکی ہتھیاروں کے استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت مانگی،غزہ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری پر زور دینے والے ڈیموکریٹس کے پروپیگنڈہ شوز کے باوجود، بالآخر 29 مارچ 2024 کو، بائیڈن نے اربوں ڈالر کے جدید جنگی طیارے اور بم اسرائیل کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔
اس سے پہلے امریکی ایوان نمائندگان کے ترقی پسند نمائندوں جیسے برنی سینڈرز نے مطالبہ کیا کہ ملکی حکومت اسلحہ کی منتقلی کے قانون پر نظرثانی کرے اور تل ابیب کو میدان جنگ میں انسانی حقوق کے معیارات پر عمل کرنے کا پابند بنائے۔
نسل کشی میں شریک
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 7 مارچ 2024 تک امریک سے ہتھیاروں کی 100 سے زائد کھیپں مقبوضہ فلسطین بھیجی جا چکی ہیں نیز سیاسی محاذ پر بھی امریکہ نے اب تک تل ابیب کے حق میں سلامتی کونسل کی پانچ قراردادوں کو ویٹو کیا ہے جبکہ صہیونیوں کے جرائم کی مذمت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا نہیں ہونے دیا۔
حتیٰ کہ جب واشنگٹن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا تب بھی اس نے صیہونی حکومت کے لیے اس کونسل کی قرارداد کی غیر پابند نوعیت کے بارے میں فوراً بات کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران کے جوہری تنازعے کے دوران امریکی حکام نے ہمیشہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر بات کی لیکن غزہ جنگ کے تجربے نے ظاہر کیا کہ اسرائیل کی سلامتی امریکی سیاستدانوں کے لیے بھی اور عالمی برادری میں بھی امریکہ کی ساکھ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
صیہونی حکومت کو ڈیموکریٹک بائیڈن حکومت کی امداد صرف مالی امداد اور ہتھیار بھیجنے پر ختم نہیں ہوتی، واشنگٹن نے مغربی ایشیائی خطے میں اپنے یورپی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر صیہونی حکومت کے گرد ایک دفاعی حلقہ تشکیل دیا ہے اور وہ مشرقی عرب خطے اور شمالی بحر ہند میں مزاحمتی اقدامات کے خلاف ایک پراکسی فورس کی حیثیت سے کھڑا ہے۔
مثال کے طور پریمن کی قومی فوج کی صیہونی حکومت سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کے خلاف کارروائیا تیز ہونے کے بعد، امریکی فوج نے سکیورٹی فورس کی تشکیل کے دو منصوبوں میں سے اکثریت میں خطے کے پانیوں میں اسرائیل کے تجارتی مفادات کا دفاع کرنے کی کوشش کی،امریکیوں کی طرف سے اس طرح کا رویہ اپنانا غزہ میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے دائرہ کار کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکیوں کی بے ایمانی کو ظاہر کرتا ہے، واشنگٹن کی جانب سے اس طرح کا طرز عمل اپنانا اسرائیل کو غزہ کی جنگ کے چھ ماہ بعد نہ صرف جنگ ختم کرنے کی جلدی میں نہیں بلکہ رفح کے علاقے پر زمینی حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کے بارے میں بات کرنے کا باعث بنا ہے۔
خلاصہ
پریس ریلیز اور پریس کانفرنسوں میں دیے گئے بیانات کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن حکومت غزہ کی پٹی میں نیتن یاہو حکومت اور اسرائیلی فوج کی حمایت بند کرنے کے لیے سنجیدہ ارادہ نہیں رکھتی، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ ڈیموکریٹس پروپیگنڈہ شوز شروع کر کے ترقی پسند قوتوں اور امریکی مسلمانوں کی تسلی کے لیے انسانی امداد بھیج کر خود کو غزہ کے لوگوں کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
مزید پڑھیں: امریکہ فسطینی بچوں کو مارنے کے لیے اب صیہونی حکومت کو کیا دے رہا ہے؟
درایں اثنا امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی ٹیم کے ارکان، AIPAC اور J Street جیسی ممتاز اسرائیلی لابیوں کے ساتھ مل کر، مقبوضہ علاقوں کو بھیجی جانے والی ہر قسم کی مالی فوجی امداد کی منظوری اور عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ بائیڈن کی یہ دوغلی پالیسی قلیل مدت میں رائے عامہ کے ایک حصے کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن آخر کار اس عمل کے جاری رہنے سے حقیقت آشکار ہو جائے گی اور امریکی حکومت کو بین الاقوامی برادریکے سامنے مزید ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مشہور خبریں۔
لوگ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بی جے پی کی پالیسیوں کی مزاحمت کریں
🗓️ 24 اپریل 2024سرینگر: (سچ خبریں) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں
اپریل
اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان مندی میں تبدیل
🗓️ 8 جنوری 2024اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہفتے کے پہلے کاروباری روز
جنوری
سعودی خفیہ عدالتیں
🗓️ 8 فروری 2022سچ خبریں:سعودی عرب نے سیاسی قیدیوں کے خلاف مقدمے چلانے کے لیے
فروری
امریکی سیاست کے بارے میں امریکی تجزیہ کار کا اہم اعتراف
🗓️ 13 جولائی 2023سچ خبریں:امریکہ میں کالج آف پولیٹیکل سائنس اینڈ پبلک پالیسی کے اسسٹنٹ
جولائی
عوام لاس اینجلس کی آگ کا موازنہ غزہ کی تباہی سے کیوں کررہی ہے ؟
🗓️ 12 جنوری 2025سچ خبریں: لاس اینجلس میں آتشزدگی کے آغاز کے بعد سے، سائبر
جنوری
علمائے کرام سے بھر پور تعاون کی ضرورت ہے:ڈاکٹر فیصل سلطان
🗓️ 12 اپریل 2021اسلام آباد(سچ خبریں)اسلام آباد میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی
اپریل
بائیڈن کو یوکرین زیادہ پیارا ہے یا اسرائیل؟
🗓️ 1 نومبر 2023سچ خبریں: وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ جب تک صیہونی حکومت
نومبر
وزیر اعظم نے مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن قرار دیا
🗓️ 2 جنوری 2022اسلام آباد(سچ خبریں) وزیرِ اعظم عمران خان نے کرپشن کو مسلم دنیا
جنوری